بغیر گنبد والی مسجد، اونچا مینار اورایک نبی کی قبر
ایک نبی کی قبر مزار شریف سے مغرب کی طرف کوئی بیس کلو میٹر کے فاصلے پر بلخ شہر آباد ہے۔ بلخ سےکچھ فاصلےپر ایک باغ میں کئی سو سال پرانی مسجد واقع ہے جسے بغیر گنبد کے مسجد کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تاریخ کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ معلوم نہ ہو سکا۔ اس مسجد کی ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ اس کے ایک وسیع ہال پر کوئی چھت نہیں ہے، یعنی کوئی گنبد نہیں ہے۔ اسی لیے اسے بغیر گنبد والی مسجد کہا جاتا ہے۔
یہاں ایک خوبصورت باغ بھی ہے۔ ہم داخلی مرکزی دروازےسے گزر کرباغ میں چلے گئے۔ باغ کے درمیان میں ایک تالاب بھی ہے۔ تالاب کے ارد گرد کئی صدیوں پرانے درخت بھی تھے۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت منظر تھا۔ مسجد زیادہ تر مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے ارد گرد اب باڑ لگا دی گئی ہے۔
اس مسجد کے ایک کونے میں ایک بزرگ کی قبر ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے یہ بزرگ بہت پیدل چلتے تھے اور پیدل چل کر ہی لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اس لیے لوگ انھیں بابا پیادہ کہتے تھے، یعنی پیدل چلنے والا۔ ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی اور اس کے بعد ہم دولت آباد کی طرف چل پڑے جس کے متعلق ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ یہ ایک امیرترین قصبہ تھا اسی وجہ سے اس کا نام دولت آباد رکھا گیا تھا۔دولت آباد سے ہم جنوب مشرق کی طرف ایک صحرا سے گزر کر ایک گاؤں میں پہنچے جہاں ایک اونچا اینٹوں کا مینار تھا، جو کافی فاصلے سے نظر آرہا تھا۔ ا س مینار کی اونچائی کوئی سو میٹر کے قریب ہو گی۔ اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تھی اور اس کے سامنے تالاب بھی۔ ایک کمرے میں ایک قبر تھی اس کے متعلق لکھا ہوا تھا کہ یہ ایک نبی کی قبر ہے ان کا نام بھی اس پر لکھا ہوا تھا۔ جو مجھے یاد نہیں ہے۔ یہ ہمارے لیے بھی اچھنبےکی بات تھی کہ اتنے دور دراز علاقے میں یہ قبر مبارک کیسے؟
وہاں پر ایک چھوٹا سا مدرسہ بھی تھا، مدرسہ کے امام صاحب موجود نہیں تھے اس لئے ہم کوئی زیادہ معلومات نہ لے سکے۔ہمارے کچھ دوست سیڑھیاں چڑھ کر مینار کے اوپر بھی گئے جو کہ کافی مشکل کام تھا مجھ سے تو یہ کام نہ ہو سکا۔ اس علاقے میں دور دور تک صحرا تھا اور کافی ویرانہ تھا۔ گاؤں سے آکر ہم دوبارہ دولت آباد آگئے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمدمشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان