افغانستان کے دورہ سے قبل میں نے بلخ شہر کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا اور اس شہر کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ ہمارے قافلے میں ایک مقامی ساتھی بھی تھے جن کے پاس گاڑی تھی اوروہ ہماری رہنمائی بھی کررہے تھے، ان کے ساتھ مزار شریف کے قریب ہی رہائش پذیر ہمارے ایک ساتھی جن کا تعلق این جی اوز سے ہے وہ بھی موجود تھے جبکہ کابل سے آئے حماد صفی بھی ہمارے ساتھ ہی تھے۔ پاکستان سے میں اور نعمان احمد ان کے مہمان تھی۔
جیسے ہی ہم بلخ شہر میں داخل ہوئے تو ایک بہت ہی منفرد منظر پایا۔ یوں لگا کہ جیسے شہر کو باقاعدہ ایک ترتیب کے ساتھ بسایا گیا ہو۔ شہر کے مرکز میں ایک باغ تھا جس کے چاراطراف سڑک تھی۔ اس باغ میں بہت ہی قدیم درخت لگے ہوئے تھے۔ اسی باغ کے ایک طرف بہت بڑی مسجد تھی، چونکہ نماز ظہر کا وقت تھا سو ہم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ مسجد کی عمارت یہ بتا رہی تھی کہ یہ ایک قدیم عمارت ہے جو اپنی بناوٹ کے باعث دیکھنے کے لائق تھی۔
اونچی چھت اور وسیع ہال جہاں مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کررہی تھی وہی ہم سب پر ہیبت بھی طاری کردی۔ اس کا مرکزی دروازہ بھی بہت بلند تھا مگر دیکھنے میں بے انتہا خوبصور ت تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد مقامی افراد سے بات چیت بھی ہوئی۔ ہمارے ساتھ رہنمائی کیلئے مقامی لوگ موجود تھے اسی وجہ سےگفتگو کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔
عام طور پر افغانستان میں لوگ اپنی مقامی زبان ہی میں بات کرتے ہیں جیسے دری ازبک فارسی یا پشتو لیکن میں نے وہاں دیکھا کے پشتو زبان عام طور پر افغانستان کے ہر علاقے میں سمجھی جاتی ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں پر رابعہ بلخی کا مزار بھی ہے۔ ہم نے رابعہ بصری کا نام تو سنا ہوا ہے لیکن رابعہ بلخی کا نام نہیں سنا تھا۔ حضرت رابعہ بلخی کا مزار مبارک باغ کے ایک کونے میں تھا جہاں ہم نے ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔
اس کے بعد ہم شہر میں ایک روایتی ریستوران چلے گئے جہاں کافی رش تھا۔کھانے میں گوشت سے بنے ہوئے پکوان تھےاور ساتھ میں باربی کیو کا بھی اہتمام تھا۔کھانا کھانے کے بعد میں نے باربی کیو بنانے والے صاحب سے گفتگو کی تویہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ ایک عرصہ لاہور میں رہ کر آیا ہوا ہے۔اس سے میرا یقین اور بھی بڑھ گیا کہ جس نے لاہور میں کھانا پکایا ہو وہ بلخ میں بھی سب سے بہترین کھانا بناتا ہو گا اور اسکا ثبوت یہ تھا کہ لوگ دور دراز سے اس ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے آتے ہیں۔کھانے سے فراغت کے بعد بلخ شہر کے بازار کو بھی دیکھنے کا موقع ملا جوکہ کھلے ہوئےتھے اور بالکل ایک ہی سمت میں بنے ہوئے تھے۔
یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ مولانا جلال الدین رومی کی پیدائش بھی اسی شہر میں ہوئی تھی۔ مقامی لوگوں نے بتایاکہ مولانا روم کی جائے پیدائش پر اب ایک مدرسہ بنادیا گیا ہے۔ ہزاروں سال پرانے بلخ شہر کی تاریخ بہت ہی قدیم اور دلچسپی سے بھرپور ہے۔میرا اس شہر میں ہونا اپنے ہی آپ میں ایک باعث مسرت کا موقع بھی تھا اور ناقابل بیان خوشی کا مقام بھی تھا۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے حملوں کی وجہ سے بلخ شہر میں بہت ستم ڈھایا گیا۔ بلخ کی ایسی تاریخ بارے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، جس میں کئی دعوے بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ عربوں نے یہاں پر موجود بدھ مت کی کئی عبادت گاہوں سے جواہرات اور زیورات کو لوٹا اور بے شمار بے گناہوں کو قتل بھی کیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو میں اسے کبھی بھی دینی نقطہ نظر سے مناسب نہیں گردانتا۔ میں خود اس طرح کے واقعہ کو خواہ وہ کوئی مسلمان کرے یا غیر مسلم، سخت نامناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ایسا نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ عرب حملوں کی وجہ سے بدھ آبادی پر بہت کم اثر پڑا۔ عرب قبضہ کے باوجود بدھ مت کی اشاعت جاری رہی اور بلخ اس کا ایک اہم مرکز رہا۔ دنیا بھر سے لوگ بدھ مت کے عالم راہب اور زائرین اس جگہ آتے رہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اس دور میں بلخ کے علاقے میں عربوں کے خلاف کئی مرتبہ بغاوتیں بھی ہوئیں۔
پھر ایک وقت آیا جب بلخ پر عربوں کا تسلط ختم ہوگیا اور ساتویں صدی کے آغاز میں عربوں کو اس علاقے سے بے دخل ہونا پڑا۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے جو یقیناً پڑھنے کے قابل ہے۔ پھر اموی دور میں بلخ پر عربوں نے حملہ کیا اور بلخ پر ایک کامیاب حکومت قائم کی۔ اس دور میں کیا کچھ ہوا؟ یہ ایک افسردہ تاریخ ہے کہ کس طرح اس عظیم شہر سے علم کی روایت کو ختم کرنے کوشش کی گئی۔ اس کا تفصیلی ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ بعد میں انہی عربوں نے بلخ کی تعمیرِ نو کی اور اسے اپنے ایک صوبے کا صدر مقام بھی بنایا۔ آج میں اسی شہر کے درو بام دیکھ رہا تھا۔
اموی دور آٹھویں صدی کے وسط تک جاری رہا۔ پھر عباسی انقلاب کے نتیجہ میں بلخ تقریباً ایک سو سال تک عباسیوں کے قبضہ میں رہا۔ نویں صدی کے آخر میں عباسی خاندان کو زوال آگیا اور صفوی خاندان کی بنیاد رکھی گئی۔ وہ افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوگئے۔ پھر ایک دن عباسی دوبارہ قابض ہو گئے، یہ بات دسویں صدی کی پہلی دہائی کی ہے۔
بلخ کی امارات اور علم کی دنیا میں ایک مقام کی وجہ سے سامانی بھی یہاں آئے، غزنویوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ سلجوقی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے۔ جس کی تفصیل یہاں پر بیان کرنا مشکل ہے۔
تیرہویں صدی میں چنگیز خان نے بلخ کو جس طرح تباہ و برباد کیا، یہاں کے باشندوں کا قتل کیا، شہر کی اہم عمارتوں کو تہس نہس کر دیا، یہ سب کچھ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ بھی زمانے نے دیکھا ہے کہ چودہویں صدی میں تیمور نے پھر سے اسے تعمیر کیا۔ پھر اسے کئی اور لوگوں نے بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی، ایک دفعہ پھر صفویوں نے بلخ پر حکمرانی کی، لیکن اسکا ماضی کوئی بھی واپس نہ لا سکا۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 1640 میں بلخ پر قبضہ کی کوشش کی اورآخر کار 1641 میں بلخ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آپ اندازہ کریں کہ مغل سلطنت کی حدود کیا تھیں؟ ایک طرف بلخ اور دوسری طرف بنگال، تیسری طرف گلگت بلتستان، جنوب میں گجرات سے بھی آگے۔
بلخ کسی وقت میں اورنگ زیب حکومت کا ایک اہم شہر تھا۔ 1736 میں پھر اس کی تباہی نادر شاہ کے ہاتھوں ہوئی۔ جب 1751 میں افغانستان کی بنیاد رکھی گئی تو اسے احمد شاہ درانی نے افغانستان کا حصہ بنا لیا۔ ا س سے پہلے وہ اس پر قبضہ کر چکا تھا۔ وہ دن گیا جب بلخ ایران، وسطی ایشیا اور خراسان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس دن سے یہ افغانوں کے زیر تسلط ہی ہے۔
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ بلخ بالکل تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔ جس کے تحت نئے مکانات اور بازار بنائے گئے۔ اس علاقے میں کپاس کی پیداوار کی وجہ سے اسے اور بھی پہنچان مل گئی۔ روسیوں کے حملہ کی وجہ سے بلخ میں بے حد تباہی ہوئی۔ امریکہ کے ساتھ جنگ میں بھی بلخ کو بے حد نقصان ہوا۔
اب جو بلخ میں نے دیکھا ہے وہ ایک جدید بلخ ہے جہاں ماضی صرف فضا میں مہک رہا ہے۔ زمین پر اس کے تمام نشانات مٹا دیئے گئے ہیں۔
کاش کچھ تو باقی رکھا ہوتا۔ شاید جنگ میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
بلخ شہر سے تعلق رکھنے والی چند اہم شخصیات کا ایک مختصر تذکرہ
ابو شکور بلخی دسویں صدی کے فارسی شاعر، دسویں صدی کی
ہی شاعرہ ربیعہ بلخی جنکو فارسی شاعری کی تاریخ کی پہلی خاتون شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تیرہویں صدی کےمشہور فارسی مولانا جلال الدین رومی کی پیدائش اس شہر میں ہوئی، امیر خسرو (دہلوی) کے والد امیر سیف الدین بھی بلخ کے رہنے والے تھے۔
ابن سینا، دسویں صدی کے فلسفی اور سائنس دان جن کے والد عبداللہ بلخ شہرکے رہنے والے تھے۔ خالد بن برمک، خلافت عباسیہ کے وزیر بلخ کے قریب ایک گاؤں سمن میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ غزنوی خاندان کے بانی سبکتگین کا انتقال بھی بلخ میں ہوا۔ امیر تیمور جس نے تیموری سلطنت کی بنیاد رکھی اسکی تاج پوشی بھی بلخ میں کی گئی۔
کچھ تاریخ دانوں کے مطابق زرتشت، قدیم ایرانی پیغمبر (روحانی پیشوا) 1500 سے 500 قبل مسیح کے دوران بلخ میں پیدا ہوئے جبکہ بعض مورخین کے بقول انکی وفات کا شہر بلخ ہے۔ آٹھویں صدی کےمشہور صوفی بزرگ ابراہیم بن ادھم کا تعلق بھی بلخ سے تھا۔ اسی طرح بلخ شہر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے جس کے لیے مجھے کافی صفحات چاہیے۔ مگر جب میں اس شہر میں موجود تھا تو یہ سب کچھ مجھے یاد آرہا تھا۔
بلخ شہر میں کافی وقت گزار کر اسکی مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے واپس مزار شریف کی چل پڑے۔ اگر کبھی مجھے موقع ملا تو دوبارہ اس شہر کی سیاحت کے لیے پھر جاؤں گا اور کیوں نہ جاؤں، یہی تو وہ شہر ہے جس نے علم کی دنیا میں مسلمانوں کا نام روشن کیا ہے۔
شہر سے نکلتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ بلخ میں کوئی پرانی عمارت تو نظر نہ آئی، البتہ ا س کے ہر گوشہ سے، خوبصورت باغ سے، اس کی عالی شان مسجد کے دَر و دِیوار سے اور ترتیب سے بسے اس شہر سے آتی خوشبو ضرور یہ بتارہی تھی کی یہ وہی شہر ہے جس سے کئی مشہور ہستیاں منسلک رہی اور انھوں نے جہاں انفرادی طور ہر اپنا نام کمایا وہی بلخ شہر کو بھی مشہور کردیا۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈئشن پاکستان
Facebook Comments Box