نہر زبیدہ: ملکہ زیبدہ کے بہت سے کارناموں میں سے ایک عظیم فلاحی منصوبہ
زبیدہ بنت جعفر بن منصور پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ تھیں۔ وہ ذاتی طور بے حد دولت مند ہونے کا ساتھ ساتھ تقویٰ اور عاجزی کی وجہ سے بھی مشہور تھیں۔ اس نے کئی فلاحی منصوبے تیار کیے جو عام لوگوں کے لیے بے حد مفید تھے۔ اس کا سب سے سب سے بڑا کارنامہ چودہ سو کلومیٹر سے بھی زائد طویل حجاج اکرام کے راستے کو بہتر بنانا تھا جو کوفہ کو مکہ اور مدینہ سے ملاتا تھا۔ ا س راستے کو ہر لحاظ سے اس قابل بنایا کہ حجاج کے علاوہ یہ شاہراہ ایک تجارتی گزر گاہ بھی بن گئی۔ اسے دربِ زبیدہ کہتے تھے۔ اس کا دوسرا بڑا کارنامہ نہر زبیدہ ہے ۔ ا س بارے ابو طارق حجازی نے بھی ایک مضمون “ملکہ زبیدہ کی دیگر اہم کامیابیاں” کے نام سے لکھا ہے۔
ملکہ زبیدہ کا ایک اہم ترین کارنامہ نہر عین زبیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ 193 ہجری میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد زبیدہ حج کے لے آئیں۔ ا س دوران انھوں نے عرفات، منیٰ اور مکہ مکرمہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت کی نظارہ کیا۔ ا س نے دیکھا زائرین پیاس سے تڑپ رہے تھے اور پانی بیچنے والے ایک دینار کی ایک بوتل بیچ رہے تھے۔ اس صورتحال سے وہ بے حد دکھی ہوئی اور اس نے نہر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بہترین انجینئرز کی خدمات حاصل کیں تاکہ ایک ایسی نہر بنائی جائے جو مکہ مکرمہ کے تمام علاقوں میں حجاج کو مفت پانی فراہم کر سکے۔ جب مزید معلومات حاصل کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ ایک ناممکن منصوبہ ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر چٹانوں کے نیچے سرنگیں کھودنے کے علاوہ کئی ڈھلوانوں بھی موجود تھیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک بہت مہنگا منصوبہ ہوگا۔
مکہ کے لیے پانی لانے کے لیے حنین سے نہر لانے کا فیصلہ کیا جہاں پہاڑوں سے کئی پانی کے چشمے نکلتے تھے۔ زمین بنجر اور خشک اور موسم بہت گرم تھا، زمین کی سطح پر نہر کو برقرار رکھنا بہت مشکل تھا، اس لیے انجینئروں نے ایک زیر زمین نہر بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے ملکہ زبیدہ نے وادی حنین کا پورا علاقہ جس میں چشمے اور پانی کے دیگر ذرائع موجود تھے انکو خریدا۔
پہاڑوں کے راستے پانی لانا ایک مشکل کام تھا، جس کے لیے پہاڑوں کو کاٹنے اور بنجر اور پتھریلی پہاڑیوں کی کھدائی کے لیے بڑی تعداد میں افرادی قوت، وقت اور وسائل درکار تھے۔ کہتے ہیں کہ جب ملکہ زبیدہ کے سامنے یہ ساری باتیں رکھی گئیں تو اس نے کہا
“کدال اور بیلچے کے ہر وار کے لیے، میں ضرورت پڑنے پر ایک درہم دینے کے لیے تیار ہوں” اس نے یہ کہا اور کام شروع کر دیا گیا۔
اس پورے منصوبے میں تین سال لگے۔ لیکن اہلِ مکہ کو پانی نصیب ہو گیا۔ پھر ایک وہ دن آیا جب ملکہ زبیدہ کے خوبصورت محل کے باہر لوگ اکٹھے ہوئے۔ ملکہ نے بالکونی سے خطاب کیا اور کہ “آج میں مکہ نہر کی تمام حساب کی کتاب بند کر رہی ہوں۔ جن لوگوں پر مجھ سے کوئی رقم واجب الادا ہے انہیں واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جن لوگوں کا مجھ پر قرض ہے، انہیں فوراً ادا کر دیا جائے گا اور رقم دوگنی کر دی جائے گی۔ یہ کہہ کر تمام حساب کتابوں کو دریا میں پھینکنے کا حکم دیا اور کہا: میرا اجر اللہ کے ذمے ہے۔”
اس نہر کی لمبائی کئی لوگوں نے مختلف لکھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی لمبائی 35 کلومیٹرسے زائد ہے۔ سفر اتنا طویل نہیں ہے لیکن پہاڑی علاقے کی وجہ سے لاگت اورمحنت بہت زیادہ کرنا پڑی۔ اس نہر کا کچھ حصہ مکہ کے قریب مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا، بے اختیار اللہ کی بندی کےلیے دعا نکلی اللہ اسے بہترین اجر عطا فرمائے۔ مخلوق خدا کی خدمت کرنے والوں کا نام خدا خود زندہ رکھتا ہے۔
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان