یہ ایک ایسا چونکا دینے والا عنوان ہے جو آپکو ایک لمحے کیلئے مخمصے میں ڈال دے گا کہ ساری زندگی جس چیز سے بھاگتے اور بچتے رہے وہ ہمارے لیے آج کے دن سے ضروری کیسے ہوگئی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ کل عالم عالم کل نہیں ہے۔ بازار میں بیٹھاموچی جوتا گانٹھنے میں ماہر ہے جبکہ سوٹ پہنا نوجوان کمپیوٹر سکرین پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنا جانتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے علم کے ماہر ہیں اور کسی ایک کا علم بھی کسی دوسرے سے کمتر نہیں ہے۔ اب اگر کمپیوٹر کا ماہر نوجوان اس موچی کے علم کو فلم بند کرکے انٹرنیٹ پر ڈال دے تو اس موچی کے علم سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے۔ اب اس کہانی کو عنوان سے جوڑیں تو یہ عقدہ کھلتا ہےکہ موچی نے اپنا علم بطور قرض حسنہ اس نوجوان کو دیا اور اس نوجوان نے وہ علم انٹرنیٹ پر ڈال کر آگے کئی لاکھ لوگوں کو وہ قرض منتقل کردیا اور پھر اس سے مماثل ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ہمارے گردونواح میں ایسی بے شمار علم بکھرے پڑیں ہیں جنھیں بطور قرض حاصل کرکے آگے منتقل کیا جاسکتا ہے۔ دیے سے دیا جلانے کے اس سفر میں کئی ضرورت مندوں کی امداد بھی ہوسکتی ہے اور سینکڑوں مرجھائے چہرے خوشی سےدوبارہ بھی کھل سکتے ہیں۔
یہ ایک عادت چھوڑ دینا زندگی پکڑ لینے کے مترادف ہے
26
Sep
Facebook Comments Box