تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے حملوں کی وجہ سے بلخ شہر میں بہت ستم ڈھایا گیا۔ بلخ کی ایسی تاریخ بارے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، جس میں کئی دعوے بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ عربوں نے یہاں پر موجود بدھ مت کی کئی عبادت گاہوں سے جواہرات اور زیورات کو لوٹا اور بے شمار بے گناہوں کو قتل بھی کیا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو میں اسے کبھی بھی دینی نقطہ نظر سے مناسب نہیں گردانتا۔ میں خود اس طرح کے واقعہ کو خواہ وہ کوئی مسلمان کرے یا غیر مسلم، سخت نامناسب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ایسا نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ عرب حملوں کی وجہ سے بدھ آبادی پر بہت کم اثر پڑا۔ عرب قبضہ کے باوجود بدھ مت کی اشاعت جاری رہی اور بلخ اس کا ایک اہم مرکز رہا۔ دنیا بھر سے لوگ بدھ مت کے عالم راہب اور زائرین اس جگہ آتے رہے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ اس دور میں بلخ کے علاقے میں عربوں کے خلاف کئی مرتبہ بغاوتیں بھی ہوئیں۔
پھر ایک وقت آیا جب بلخ پر عربوں کا تسلط ختم ہوگیا اور ساتویں صدی کے آغاز میں عربوں کو اس علاقے سے بے دخل ہونا پڑا۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے جو یقیناً پڑھنے کے قابل ہے۔ پھر اموی دور میں بلخ پر عربوں نے حملہ کیا اور بلخ پر ایک کامیاب حکومت قائم کی۔ اس دور میں کیا کچھ ہوا؟ یہ ایک افسردہ تاریخ ہے کہ کس طرح اس عظیم شہر سے علم کی روایت کو ختم کرنے کوشش کی گئی۔ اس کا تفصیلی ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ بعد میں انہی عربوں نے بلخ کی تعمیرِ نو کی اور اسے اپنے ایک صوبے کا صدر مقام بھی بنایا۔ آج میں اسی شہر کے درو بام دیکھ رہا تھا۔
اموی دور آٹھویں صدی کے وسط تک جاری رہا۔ پھر عباسی انقلاب کے نتیجہ میں بلخ تقریباً ایک سو سال تک عباسیوں کے قبضہ میں رہا۔ نویں صدی کے آخر میں عباسی خاندان کو زوال آگیا اور صفوی خاندان کی بنیاد رکھی گئی۔ وہ افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوگئے۔ پھر ایک دن عباسی دوبارہ قابض ہو گئے، یہ بات دسویں صدی کی پہلی دہائی کی ہے۔
بلخ کی امارات اور علم کی دنیا میں ایک مقام کی وجہ سے سامانی بھی یہاں آئے، غزنویوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ سلجوقی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ ایک طویل تاریخ ہے۔ جس کی تفصیل یہاں پر بیان کرنا مشکل ہے۔
تیرہویں صدی میں چنگیز خان نے بلخ کو جس طرح تباہ و برباد کیا، یہاں کے باشندوں کا قتل کیا، شہر کی اہم عمارتوں کو تہس نہس کر دیا، یہ سب کچھ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ بھی زمانے نے دیکھا ہے کہ چودہویں صدی میں تیمور نے پھر سے اسے تعمیر کیا۔ پھر اسے کئی اور لوگوں نے بھی تعمیر کرنے کی کوشش کی، ایک دفعہ پھر صفویوں نے بلخ پر حکمرانی کی، لیکن اسکا ماضی کوئی بھی واپس نہ لا سکا۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 1640 میں بلخ پر قبضہ کی کوشش کی اورآخر کار 1641 میں بلخ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آپ اندازہ کریں کہ مغل سلطنت کی حدود کیا تھیں؟ ایک طرف بلخ اور دوسری طرف بنگال، تیسری طرف گلگت بلتستان، جنوب میں گجرات سے بھی آگے۔
بلخ کسی وقت میں اورنگ زیب حکومت کا ایک اہم شہر تھا۔ 1736 میں پھر اس کی تباہی نادر شاہ کے ہاتھوں ہوئی۔ جب 1751 میں افغانستان کی بنیاد رکھی گئی تو اسے احمد شاہ درانی نے افغانستان کا حصہ بنا لیا۔ ا س سے پہلے وہ اس پر قبضہ کر چکا تھا۔ وہ دن گیا جب بلخ ایران، وسطی ایشیا اور خراسان کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس دن سے یہ افغانوں کے زیر تسلط ہی ہے۔
تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ بلخ بالکل تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔ جس کے تحت نئے مکانات اور بازار بنائے گئے۔ اس علاقے میں کپاس کی پیداوار کی وجہ سے اسے اور بھی پہنچان مل گئی۔ روسیوں کے حملہ کی وجہ سے بلخ میں بے حد تباہی ہوئی۔ امریکہ کے ساتھ جنگ میں بھی بلخ کو بے حد نقصان ہوا۔
اب جو بلخ میں نے دیکھا ہے وہ ایک جدید بلخ ہے جہاں ماضی صرف فضا میں مہک رہا ہے۔ زمین پر اس کے تمام نشانات مٹا دیئے گئے ہیں۔
کاش کچھ تو باقی رکھا ہوتا۔ شاید جنگ میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ