دنیا میں اگر مخلوق کودو حصوں میں تقسیم کیا جائےتو ایک وہ مخلوق ہے جسے ہم جاندار کہتےہیں، جن میں انسان، جانور اور چرند پرند وغیرہ شامل ہیں۔دوسری چیزیں نباتات ہیں۔ نباتات بھی اپنی جگہ پہ موجود ہیں جیسے پہاڑ، لوہا، تانبا، پانی، وغیرہ؛ یہ سب چیزیں نباتات ہیں۔ ان سب چیزوں کو استعمال کرنے کا اختیار اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسانوں اور جانداروں کو دے رکھا ہے۔
اس کائنات کے بنانے والے نے بے شمار قوانین بنائے ہیں، جنہیں ہم فطری قوانین کہہ سکتے ہیں ۔ مثلاً پانی کا کیا کام ہے؟ اگر آپ اس میں ڈوب جائیں گے تو آپ سانس نہیں لے سکتے لیکن معجزہ کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ خدا نے معجزے بھی دکھائے ہیں، کسی کومچھلی کے پیٹ سے زندہ باہر نکالا ہے، آگ سے باہر نکالا ہے اور کسی کو چھری کے نیچے سے بھی زندہ نکالا ہے، سمندر پھاڑ کر بھی لوگوں کو باہر نکال سکتا ہے. یہ سب معجزے ہیں لیکن معجزے ہر روزنہیں ہوتے اور ہر فرد کے ساتھ نہیں ہوتے۔ ایسا کرنا اللہ سبحان و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
میں اور آپ ایک عام آدمی ہیں ہمارے ساتھ معجزے نہیں ہوتے (ہو بھی سکتے ہیں اگر
اللہ سبحان و تعالیٰ چاہے)۔ ہم دنیا کے اندر اسباب کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اسباب کی دنیا میں پانی کا کام ڈبونا ہے، تلوار کا کام کاٹنا ہے اور آگ کا کام جلانا ہے۔ اگر ہم اسباب کی دنیا میں رہتے ہیں تو پھر ہمیں اسباب ہی مہیا کرنے پڑیں گے۔
مثال کے طور پر اگر آپ پانی میں ڈوبنے سے بچنا چاہتے ہیں تو اس سے بچنے کے لیے آپ کسی عقیدے یا کسی مذہب کی بنیاد پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمان نہیں ڈوبے گا لیکن منکرِ خدا ضرور ڈوب جائے گا، ایسا نہیں ہو سکتا۔ آگ ہےتو وہ جلائے گی ۔آگ بھی اسی کے حکم سے جلاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی، خلیل اللہ، کو بچانا تھا تو آگ کو حکم دیا کہ وہ نہ جلائے اور اس نے نہیں جلایا، ایسا ہر روز نہیں ہوتا۔ میں آگ پہ ہاتھ رکھوں گا ، تو آگ مجھے جلائے گی ، تلوار پہ ہاتھ رکھوں گا تو تلوار مجھے کاٹے گی۔
کوئی وائرس آئے گا ، وائرس کواللہ نے حکم دیا ہے اس کی فطرت میں ہے کہ اس نے اپنا کام کرنا ہے، نقصان پہنچانا ہے، سانپ نے ڈنگ مارنا ہی مارنا ہے۔ اللہ عزوجل نے انہیں جو فطری اصول دیے ہیں وہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ آگ کا کام جلانا ہےتو وہ کبھی انکار نہیں کرتی کہ میں نہیں جلاؤں گی۔ ان کے نزدیک یہ تخصیص نہیں ہے کہ کسے جلانا ہے اور کسے نہیں ؟کالے کو جلانا ہے اور گورے کو نہیں ، مسلمان کو جلانا ہے اور غیر مسلم کو نہیں، کس کو ڈبونا اور کس کو نہیں۔
فطری قوانین مسلمانوں، غیرمسلموں، کالے، چٹے گورے آج سے ہزاروں سال پہلے اور ہزاروں سال بعد بھی بالکل ویسے ہی ہیں جیسے اللہ سبحان و تعلیٰ نے بنائے تھے۔
ہم اسباب کی دنیا میں رہتے ہوئے ہمیں اسباب پیدا کرنے پڑیں گے، نمبر اسی کے آئیں گے جو محنت کرتا ہے، ترقی وہی کرے گا جو کوشش کرتا ہے، محنت کرتا ہے، علم حاصل کرتا ہے اورسارے ضروری کام کرتا ہے۔
دنیامیں طاقت اور ترقی کےلیے اسباب کی ضرورت ہے۔ تلوار کا مقابلہ کرنا ہے تو ڈھال چاہیے، پانی کے اندر چھلانگ لگانی ہے تو تیرنا آنا چاہیے، آگ سے بچنا چاہتے ہیں تو فائر فائٹر لباس چاہیے ، دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کو چلانے کا سلیقہ اور قرینہ آنا چاہیے، یہ سب اسباب ہوں گے ہی تو چیزیں بہتر ہوں گی ۔
آئیں اسباب کی دنیا کو اسباب کے نقطۂ نظر سے دیکھیں اور اسباب پیدا کریں لیکن آخر میں یہ بات میں پھر کہنا چاہوں گا کہ اسباب اپنی جگہ پہ بہت اہم ہیں لیکن اللہ رب العزت کی مدد شاملِ حال ہو تو بہت سارے اسباب بھی آپ کا ساتھ دیتے ہیں اور آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔
اسباب کا بھی اہتمام کیجیے، صبح آ کر وقت پر دکان بھی کھولیے اور یہ دعابھی کیجیے کہ اللہ تیرے حکم کےمطابق، تو نے مجھے جو رزق کمانے کا طریقہ کار سکھایا ہے میں اس کے مطابق آگیا ہوں۔ اب اس کام میں برکت ڈالنا، اس کو بہتر کرنا تمہاری مرضی ہے اور انشاءاللہ العزیز آپ محنت کریں، کوشش کریں، جدوجہد کریں تواللہ رب العزت نا انصافی نہیں کرتا، وہ آپ کو اس کا بہترین صلہ ضرور عطا فرمائے گا۔
انشاءاللہ العزیز
بقول مولانا حالی
مشقت کی ذلت جنہوں نے اٹھائی۔ ۔
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی۔ ۔
بغیر اس کے کبھی کسی نے نہ پائی ۔ ۔
نہ عزت، نہ دولت، نہ کشور کشائی
نہال اس گلستاں میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں ۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان