Taawun

“زلزلے لوگوں کو نہیں مارتے، عمارتیں مارتی ہیں۔”

زلزلے قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کى وجہ سے رونما ہوتے ہيں، جس کى وجہ سے زلزلياتى لہريں پيدا ہوتى ہيں اور يہ توانائى اکثر آتشفشانى لاوےکى شکل ميں سطح زمين پر نمودار ہوتى ہے جس کى وجہ سے سطح زمين کے اوپر جھٹکے پيدا ہوتے ہيں اور زلزلے رونما ہوتے ہيں۔
دنيا کی تاريخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ ان ميں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصّے کو ديکھتے ہی ديکھتے صفحۂ ہستی سے مٹاکر رکھ ديا۔ يہ حقيقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات ميں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہيں کیوں کہ يہ بغير کسی پيشگی اطلاع کے ايک دم نازل ہوتا ہےاوريوں ذہنی طور پر کسی کو اس کا سامنا کرنے کی تياری کا وقت بھی نہيں ملتا۔ انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات ديگر قدرتی آفات مثلاً سيلاب، طوفان، وبائی بيماريوں اور جنگوں وغيرہ کے مقابلے ميں کہيں زيادہ گہرے اور ديرپا ہوتے ہيں۔ زلزلوں کی ہلاکت خيزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہيں زيادہ ہے۔ نفسياتی ماہرين کا تجزيہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شديد حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہيں۔ ايک اندازےکے مطابق اب تک آنے والے زلزلوں میں آٹھ کروڑ انسان لقمہ اجل بن چُکے ہيں اور مالی نقصانات کا تو اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے ۔ یہ بات تو وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ تاریخ کا قدیم ترین زلزلہ کب اور کہاں آیا البتہ وہ پہلا زلزلہ جسکا تاریخ میں ذکر ملتا ہے وہ تقریباً تین ہزار برس قبل 1177 قبل مسیح میں چین میں آیا تھا۔
8اکتوبر 2005،صبح 8 بج کر 52 منٹ پر پاکستان میں جو قيامت خيز زلزلہ آيا اس نے جہاں آزاد کشمير اور صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) کے ہزارہ ڈويژن ميں تباہی پھيلائی وہيں ملک کا دار الحکومت اسلام آباد بھی اس ہلاکت آفريں زلزلے کی زد ميں آيا۔ زلزلے کے ابتدائی جھٹکے اس قدر شديد اور خوفناک تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام لوگ گھروں، دفترو ں اور کاروباری مراکز سے خوفزدہ ہوکر سڑکوں پر آ گئے ۔ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.6 تھی۔ اس زلزلے سے کشمیر، اسلام آباد، بالاکوٹ، مانسہرہ، ہزارہ سمیت بہت سے چھوٹے بڑے دیہاتوں اور قصبوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 2005ء میں آنے والا زلزلہ اب تک کے وقوعوع پذیر ہونے والے زلزلوں میں المیے کے لحاظ سے چودہواں بڑا زلزلہ تصور کیا جاتا ہے۔جس سے صرف پاکستان میں 3.3 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس زلزلے سے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ ہوئی جس کے باعث مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق 8 ملین سے زیادہ آبادی اس المیے سے متاثر ہوئی۔
زلزلے بہت سی وجوہات کے باعث آتے ہیں جن میں آبی ذخائر، سطح اور زیر زمین کان کنی، زمین کے نیچے سے مائعات اور گیسوں کا اخراج شامل ہیں۔

انسانی ساختہ زلزلوں سے لاحق خطروں کو کم سے کم کرکےاور بعض صورتوں میں اس سرگرمی کو روکا بھی جاسکتا ہے ۔ ہم قدرتی زلزلوں کو آنے سے نہیں روک سکتے لیکن ہم خطرات کی نشاندہی، محفوظ ڈھانچے کی تعمیر، اور زلزلے سے حفاظت بارے تعلیم فراہم کر کے ان کے اثرات کو نمایاں طور پر کم کر سکتے ہیں۔ قدرتی زلزلوں کے لیے تیاری کر کے ہم انسانوں کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کے خطرے کو بھی کم کر سکتے ہیں۔

ذیل میں دی گئی حفاظتی تدابیر اختیار کرکے زیادہ نقصان سے بچا جاسکتا ہے

اڑتے ہوئے شیشوں سے ہونے والی چوٹوں کو روکنے کے لیے، کھڑکیوں اور شیشے کے دروازوں پر حفاظتی شیٹ لگائیں۔
شیلفوں کے کنارے پر رکاوٹیں لگائیں اور بڑی، بھاری اشیاء اور ٹوٹنے والی چیزوں کو براہ راست شیلف میں محفوظ نہ کریں تاکہ انہیں گرنے سے بچایا جا سکے۔
زلزلے کے دوران آپ کو سب سے بڑا مالی یا جانی نقصان گرنے والی اشیاء اور الٹ جانے والے فرنیچر سے ہو سکتا ہے لہٰذا ایسی اشیاء کو باندھ کر رکھیں جو زیادہ بھاری ہوں۔
زلزلے کے دوران دروازے اور دراز کھل سکتے ہیں، ہمیشہ انکا مناسب بندوبست کرکے رکھیں۔
خطرناک مواد کو محفوظ جگہوں پر رکھیں۔ کیمیکلز کو ملانا یا پھیلانا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی خطرناک مصنوعات ان کے مناسب کنٹینرز میں ہیں اور ایک مضبوط کنڈی والی دیوار کے ساتھ محفوظ کیبنٹ میں محفوظ ہیں۔
گھروں میں آگ بجھانے والے آلات بھی ضرور رکھیں ۔
قدرتی آفات جیسے سمندری طوفان، موسم سرما کے طوفاناور اکثر جنگل کی آگ وغیرہ آنے سے پہلے انتباہ کا عنصر فراہم کرتی ہیں لیکن سائنس دان کبھی بھی کسی بڑے زلزلے کی درست پیش گوئی نہیں کر سکے، اس لیے تیار رہنا بہت ضروری ہے۔ آخرکار
“زلزلے لوگوں کو نہیں مارتے،عمارتیں مارتی ہیں۔”

اویس ضیاء

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *