ایک محفل میں میرا تعارف کراتے وقت کہا گیا کہ میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے، اس میں کوئی شک نہیں 1989 میں شیخ محبوب صاحب کی فیکٹری میں ،میں نے سال سوا سال ان کے ساتھ کام کیا اس طرح مجھے سیالکوٹ میں رہنے کا موقع ملا اور سیالکوٹ سے ہمارا گہرا تعلق ہے۔ ہم ٹیکسٹائل میں کام کرتے ہیں تو جو سیالکوٹ ٹیکسٹائل میں کام کرتے ہیں ان سے گہرا تعلق ہے یوں سیالکوٹ میں بہت آنا جانا ہے اور اس سے بڑھ کر سیالکوٹ سے جو لگاؤ ہے، جو انس ہے، جو تعلق ہے، وہ سیالکوٹ کے لوگوں کا ایک انوویٹیو رویہ ہے۔ وہ انوویشنز اور کولیبوریشنز ہیں جو ہمیں سیالکوٹ میں نظر آتی ہیں جو پورے پاکستان میں نہیں ہیں یہ مثال دنیا میں چند جگہ پر ہے کہ آپ پورے شہر کی سڑکیں کولیبوریشنز سے بنالیں۔ آپ اپنا ائیر پورٹ اپنی کولیبوریشنز سے بنا لیں اب ہم ائیر سیال میں بیٹھتے ہیں تو پھر لگتا ہے کہ اچھا یہ تو پھر سیالکوٹ کا ہی کارنامہ ہے کہ جنہوں نے اپنی ائیر سیال بنائی اور اس سے بھی بڑھ کر خوشی یہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر اضافہ ہورہا ہے پہلے وہ صرف کارگو تھی پھر لوکل کام شروع ہوا پھر اب انٹرنیشنل کام ہورہا ہے اور جب بھی ائیر سیال میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو کبھی کسی بھی لحاظ سے کوئی مایوسی نہیں ہوئی نہ سروس میں نہ جہاز میں نہ ان کی ٹائمنگ میں اللہ رب العزت اہل سیالکوٹ اور سیالکوٹ کو بھی زندہ رکھے۔ ان کا ایک مشہور نغمہ تھا ہم آپ کے لیے دعا گو بھی ہیں اور اہل سیالکوٹ بھی پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی شان ہے۔ پورا لاہور بھی مل کر اتنی ایکسپورٹ نہیں کرتا جتنا ایک سیالکوٹ کرتا ہے اور پھر اس بات کا ذکر کیے بغیر بات آگے نہیں ہو سکتی کہ جب بھی فٹ بال کھیلا جاتا ہے تو سیالکوٹ کا نام آتا ہے۔
تعارف کے بعد ڈاکومینڑی دیکھائی گئی اور سب کچھ ناظرین نے ملاحظہ کیا اور اس سے پہلے ہمارے صدر الخدمت فاؤنڈیشن نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم کہاں کہاں کیا کیا کام کرتے ہیں۔ سامعین سے مخاطب ہو کرمیں نے کہا کہ میں جو بات آپ کے ساتھ کر رہا ہوں وہ مجھے آپ کے ساتھ کرنی چاہیے اور میں بہت سوچ کر آیا کہ مجھے آپ سے یہی بات کرنی ہے، مجھے تین چھوٹی چھوٹی باتیں کرنی ہیں میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا پہلی بات یہ کہ ہم الخدمت فاؤنڈیشن کے ساتھ کام ہی کیوں کرتے ہیں وہ کیا characteristics ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہم کہیں کہ الخدمت فاؤنڈیشن ہی ہماری choice ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے پاس باقی چوائسز نہیں ہیں، سب چوائسز ہیں سب ہی اپنے طور پر کام کرتے ہیں ہر آدمی کو اپنی product , organization کو بیان کرنے کا موقع ملنا چاہیے مجھے موقع ملا ہے تو میں آپ کے سامنے بات کررہا ہوں پہلی بات یہ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی واحد فاؤنڈیشن ہے جو دو تین ایریاز میں نہیں بلکہ seven big areas میں کام کر رہی ہے اور اگر ہم small areas میں چلے جائیں تو وہ کم از کم 50 کے قریب ایریاز ہیں جہاں پر ہم کام کرتے ہیں بہت سارے لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ جس کا ان کی زندگی میں خدا نخواستہ کوئی واقع ہو جائے وہ اگر شوکت خانم ہو یا سندس فاؤنڈیشن ہو، سندس فاؤنڈیشن کے چیئرمین مجھے گجرانوالہ میں ملے ان کی بیٹی تھی جن کی تئیس سال کی عمر میں تھیلیسیمیا کے باعث وفات ہوگئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کی یاد میں سندس فاؤنڈیشن بنائی اس طرح سے اور بے شمار ادارے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ہیں لیکن الخدمت فاؤنڈیشن پاکستانdisaster کے اندر،orphan میں پانی کے منصوبے ہوں ، کمیونٹی سروس ہو ہیلتھ کارڈ ہو، سب ایریاز میں ہم کام کرتے ہیں تو جو بھی آپ کا جی کرے کہ میں نے کس میں کام کرنا ہے ہر آدمی کی اپنی خواہش ہوتی ہے تو وہ جہاں چاہے اپنا کام کرسکتا ہے الحمد اللہ ہم ان سارے ایریاز میں کام کرتے ہیں اور دوسری بات ہر جگہ کام کرتے ہیں اس وقت پاکستان میں 50 ہمارے دفاتر ہیں۔
تقریباً 150 دفاتر ہر ڈسٹرکٹ ایریا میں ہیں اور بہت سے چھوٹے قصبے بھی ہیں جہاں پر الخدمت فاؤنڈیشن کا setup موجود ہیں ہم ایک مکمل نیٹ ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بہت سارے دوست ہیں جو آج سے دس سال پہلے باہر گئے اور دس سال بعد ان کو خیال آیا کہ میں نے تھر پارکر میں کام کرنا ہے الحمد اللہ پورے پاکستان میں آپ جس بھی ایریا میں کام کرنا چاہیں ہم اس میں تیار ہیں اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں ہمیں ملک سے باہر خیال کرنا چاہیے افغانستان میں کرنا چاہیے ترکی فلسطین میں بھی کرنا چاہیے آج کی تاریخ میں اہل پاکستان میں جو فخر کی بات ہے الخدمت فاؤنڈیشن آپ کی تنظیم ہے کہ صرف اور صرف پاکستان سے الخدمت فاؤنڈیشن کے علاوہ کوئی تنظیم فلسطین میں مدد کے لیے موجود نہیں ہے یہ ہمارے لیے جہاں اعزاز کی بات ہے وہاں یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ جب ہم نے سات اکتوبر کے واقع کی رات فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں صبح ہی کام شروع کرنا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ڈالر کا ایکسچینج ایک مشکل کام ہے چونکہ ہمارا نیٹ ورک بہت مضبوط تھا تو ہم نے swap کیے بہت سارے فنڈز اور اسی رات فیصلہ ہوا اور آٹھ اکتوبر کو ہم نے وہاں پر کام شروع کردیا اور اہل پاکستان سے جب ہم نے اپیل کی کہ فلسطین کا ایشو ہے تو اب تک پانچ ارب روپے اہل پاکستان نے الخدمت فاؤنڈیشن پر اعتماد کرتے ہوئے ہمارے حوالے کیا جو ہم پوری دیانتداری سے اور محنت سے ہم ان کے حوالے کر رہے ہیں اور الخدمت فاؤنڈیشن کی جو تیسری بڑی خوبی ہے کہ ہم انتہائی پروفیشنل انداز میں کام کرتے ہیں کبھی آپ کو ہمارے دفتر یا ہیڈ آفس میں کام کرنے کا موقع ملے پورے پاکستان کا فائنینشل سسٹم بلکل انٹرکونیکٹڈ ہے اور آن لائن ہے ان کی ٹرانزیکشن پوری سینٹر کے اندر موجود ہے اور آپ اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں اور پروفیشنلی اس انداز سے کام کرتے ہیں کہ wastage زیادہ نہ ہو minimum time میں ہو ایک چھوٹا سا پروجیکٹ ہے میں آپ سے شئیر کرتا ہوں 28 ہزار بچے ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور وہ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم ہر مہینے یا تین مہینے کہ بعد ان 28 ہزار بچوں کے اکائونٹس کے اندر 5500 روپے پر مہینہ کے حساب سے پہنچاتے ہیں اور ان 29 ہزار سے سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اوپر ایک آفیسر ہے جو ان کی روپورٹ لیتا ہے۔ ہر بچے کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے اس کی سکول کی کارکردگی ہمارے پاس موجود ہے اس کے ڈونر کو اس کی اطلاع ہم ہر سال دو مرتبہ دیتے ہیں آپ جس کا بھی جب چاہیں ڈیٹا آپ کو مل سکتا ہے یہ اتنا بڑا نیٹ ورک ہے اور اس میں بیسیوں بینک شامل ہیں کوئی ایک بینک شامل نہیں ہے۔ الحمد اللہ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ پورے کا پورا سسٹم نہیں چل سکتا جب تک یہ latest IT کے ساتھ کام نہیں ہوگا۔
ابھی ہم نے حال ہی میں پنجاب بورڈ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ ہم اپنے دفاتر کو پیپر لیس کریں گے بہت سارا کام تو ہم نے کر لیا ہے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا طریقہ بہت پروفیشنل ہے موسٹ ماڈرن ٹیکنیکس کو استعمال کرتے ہوئے ہم کام کرتے ہیں اتنا بڑا پچھلے سال تئیس ارب روپے کا کام کیا اور کئی سو ملین لوگ جو ہیں ہمارے اس کام سے مستفید ہوئے اس سارے کام کو دیکھنے کے لیے ہمارے ہیڈ آفس میں صرف دو سو لوگ موجود ہیں جو سارا کام کرتے ہیں fund collection , distribution, accounts بھی شامل ہیں اور اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے ہمیں بہت ساری مراعات بھی دی ہیں۔ آپ ہمیں پیسے دیتے ہیں تو آپ کو انکم ٹیکس کی طرف سے ریلیف بھی مل سکتا ہے حکومت پاکستان کی طرف سے اور 42 کے تحت ہم الحمد اللہ رجسٹرڈ بھی ہو چکے ہیں تو یہ تیسری خوبی ہے۔ چوتھی خوبی یہ ہے کہ ہم تمام قوانین کی پابندی کرتے ہیں تو کسی بھی طرح کا کوئی بھی خدشہ نہیں ہے اور ساری ٹرانزیکشن کو neat and clean رکھا جاتا ہے اور تمام تر حکومت پاکستان کے قوانین کی پابندی کی جاتی ہے کہ خدانخواستہ ماضی میں ایسا ہوا ہے کہ کوئی غلطی ہوگئی یا کسی نے کسی کی مدد کی تو بعد میں اس کے بہت سارے سوالات بھی اٹھے تو الحمد اللہ یہ ایک بڑا اعزاز ہے آپ کھلے دل کے ساتھ ہماری کوئی بھی چیز چیک کر سکتے ہیں آپ ہم سے کسی بھی چیز کا حساب لے لیں ہمارے پاس پائی پائی کا حساب موجود ہے۔ آپ سیالکوٹ کا حساب کسی بھی وقت جا کر چیک کر سکتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ڈر قانون کا ہوسکتا ہے ایک ڈر شہرت کا ہوسکتا ہے ایک ڈر اس کا بھی ہے کہ جس نے کہا ہے کہ جس نے بھی یتیم کے مال کو ہاتھ لگایا میں اس کا پیٹ جہنم کی آگ سے بھر دوں گا۔ آپ نے تو پیسے دے دیے یتیم کے لیے دے دیے اب آگے ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو ہم کس طریقے سے خرچ کریں۔ غفلت سے نقصان ہو جائے وہ الگ بات ہے کوئی غلطی ہو جائے لیکن اس کا ضرور ازالہ کرتے ہیں اور جو بھی ذمہ دار جو بھی آپ کے قوانین ہیں اس کے مطابق کام کرتے ہیں۔ پانچویں خوبی یہ ہے کہ تمام 150 دفاتر کے اندر بیسیوں لوگ کام کرتے ہیں الحمد اللہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں سے کوئی ایک بھی پے نہیں لیتا بلکہ سب اکثر لوگ اپنا تیل خرچ کر کے اپنی گاڑیوں پہ آتے ہیں سب اللہ کی رضا کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس کے بعد جو ہماری نیچے ٹیم ہے جس کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہے جتنے بھی لوگوں نے سیلاب میں کام کیا اور یہ تمام وہ لوگ ہیں جو گھر سے کھا کر آتے ہیں اور گھر جا کر کھاتے ہیں صرف 8 ہزار لوگ ہیں جو ہمارے دفاتر کو مستقل طور پر دیکھتے ہیں اور وہ بھی مارکیٹ سے کم ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں اور یہ ہماری پانچویں خوبی ہے۔
اب اس کے بعد میں آپ سے اگلی بات جو کرنا چاہ رہا ہوں ہم یہ کام کرتے ہی کیوں ہیں؟ہمیں مسئلہ کیاہے؟آپ یہاں بیٹھے ہیں، ہم لاہور سے آئے ہیں پھر لیہ جانا ہے پرسوں فیصل آباد جانا ہے صدر صاحب گئے ہیں، نائب صدر گئے ہیں تو کہیں سے کہیں ہم کام کررہے ہیں آخر ہم یہ کام کرتے ہی کیوں ہیں؟ اس کی کوئی reason ہے؟آپ کو یہاں آنے کے لیے دعوت دی یہاں انتظام کیے ہمارے صدر ہمارے سیکرٹری سب لوگ، ہم اس لیے کرتے ہیں کہ میرے اور آپ کے رب کا یہ حکم ہے کہ تم میرے کنبے کی خدمت کرو یہ اسی طرح سے حکم ہے جیسے اس نے کہا کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے نبی پر،میری کتابوں پر ایمان لاؤ، یوم آخرت پر ایمان لاو میرے فرشتوں پر ایمان لاؤ اور غیب پر ایمان لاؤ جیسے اس نے کہا اسی طریقے سے کہ بیس مرتبہ سے زائد یتیم کا ذکر ہے، یتیم کی کفالت کرنی ہے اور اس کے علاوہ کوئی ڈیڑھ سو مرتبہ سے زائد اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ یہ اس کا حکم ہے جس کی بجا آوری ہم سب پر فرض ہے میرا اور آپ کا وہی مالک ہے اور یہ بھی آپ ذہن میں رکھیے آپ پڑھ لیجیے قرآن پاک کھولیے الم سے آگے جو آیت ملتی ہے اس کو دوبارہ پڑھ لیجیئے۔
اس میں صاف لکھا گیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور ساتھ یہ کہا گیا کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے، کوئی شک نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا کسی کو ہدایت کی کتاب ہے اس سے اچھی کتاب کوئی ہو نہیں سکتی لیکن ساتھ ہی شرط لگا دی یہ ان کے لیے ہدایت کی کتاب ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں جو متقی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں اور اس لیے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں اور مال صرف پیسہ نہیں ہے وہ سٹیٹس بھی ہے وہ ذوق بھی ہے وہ شوق بھی وہ آپ کا علم بھی ہے وہ آپ کا معاشرتی مقام بھی ہے۔ آپ کا وقت، سب اللہ کا دیا ہوا رزق اور نعمت بھی ہے جس کے میں بارے میں اس نے اپنے قرآن مجید میں بتا دیا کہ میں اس کا حساب بھی لوں گا اور یہ گارینٹی نہیں کہ یہ وہ پیسہ نہیں ہے جو ماں باپ سے لیں اور اس کا حساب نہ دیں یہ وہ پیسہ ہے جو رب کائنات نے ہمیں دیا آپ کو دیا مجھے دیا اور پھر اس نے ساتھ ہی فرمایا کہ میں تم سے اس کا حساب بھی لوں گا۔ دوسری بات ہم یہ کام کیوں کرتے ہیں ہم یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے بدلے ہمارا رب راضی ہو گا ہمارا رب کہتا ہے کہ میں بیمار تھا مجھے پانی کی طلب تھی میں بھوکا تھا تو تم نے میری مدد نہیں کی یا رب کائنات یہ کیسے ہوسکتا ہے پھر وہ فرماتا ہے کہ تمھارے محلے میں تمھارے شہر میں فلاں بندہ تھا جب تم اس کے پاس جاتے تو تم مجھے پاتے اس ملک کے اندر آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں کون ان کو بھیجے گا سوا لاکھ بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں کتنے لوگ اپنے بچوں کو سکولوں سے باہر لے جانے پر مجبور ہیں۔
کتنی تعداد میں یہاں چائلڈ لیبر کام کرتی ہے تو رب نے جو مجھے اور آپ کو دیا ہے ہم نے اس میں سے ان کو واپس کرنا ہے ان کو ہر حال میں دینا ہے یہی میرے اور آپ کے رب کا حکم ہے اور اس کے بدلے میں اس نے کہا دوں گا اک دانا اور اس کے بدلے سات دانے دوں گا سات دانے میں سو بالی ہوگی اور خوشحالی دوں گا بے خوفی دوں گا اور تم خوش ہو جاؤ گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ مجھے تو بہت خوشی ہوتی ہے جب میں کسی کے کام آتا ہوں مجھے تو یوں لگتا جیسے میں relax ہوگیا کوئی anxiety, کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور میں نے ایک حدیث پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو قرض لے کر دیتے تھے تو دنیا کی جو سٹڈیز بتاتی ہیں کہ آپ وہ لوگ جو چیریٹی کرتے ہیں لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ان کے جسمانی مسائل بھی کم ہوتے ہیں اور برکت بھی ہوتی ہے اور اللہ کی رحمتیں بھی آتی ہیں خوشی بھی ملتی ہے اور خوشی سے بڑی خوشی کیا ہے جب آپ کسی کو پانی پلاتے ہیں میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں جب بھی اللّہ نے توفیق دی تو کوئی کام کیا تو اس کے بدلے میں اتنی دعائیں ملتی ہیں کہ جتنی آپ جو مرضی کرلیں آپ کو وہ دعائیں نہیں مل سکتیں۔ جو دعا ان کے دل سے نکلتی ہے وہی اثر رکھتی ہے تو وہ دعا اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہے یہ میری دوسری بات تھی اب تیسری بات تھوڑی سی اس سے مختلف ہے ہم ایک چیئرٹی آرگنائزیشن ہیں ہمارا اوریجنل کام یہ ہے کہ آپ سے پیسے لے کہ ہسپتال بنائیں گے آپ کو دوائی لے کے دیں گے ضرورت مندوں تک پہنچائیں گے ان کی مشکلات کو حل کریں گے that is our duty that is our function لیکن اب ہم نے ایک اور قدم آگے بڑھایا ہے ہم نے سوشل ڈیولپمنٹ کا بھی کام کرنا ہے ہمیں awareness کا بھی کام کرنا ہے ہمیں لوگوں کی skills کو بھی چلانا ہے ہمیں یوتھ کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ابھی آپ نے ائیرپورٹ میں دیکھا کہ ہم نے پلانٹیشن کی اب ایک چیئرٹی آرگنائزیشن کا پلانٹیشن سے کیا تعلق یقینی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے اور نہیں ہوتا لیکن ہم نے اسے بنایا کہ یہ بھی ایک معاشرے کی خدمت کا حصہ ہے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں لاہور کبھی باغوں کا شہر تھا آپ میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کا لاہور سے کوئی واسطہ نہ ہو اور آج جب pollution کی لسٹ آتی ہے تو اس میں سیالکوٹ کا نام نہیں ہوتا بلکہ لاہور اس میں دوسرے تیسرے نمبر پر ہوتا ہے آخر اسے کس نے خراب کیا ہم نے کیا اور اسے ٹھیک بھی ہم نے کرنا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ پاکستان کے اندر نشے میں مبتلا ہیں اوراس میں بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بیس لاکھ خواتین ہیں اس لیے کہ ان کے پوزیٹو ایکٹیویٹز نہیں ہیں ہم نے ایک کلب بنایا اور اس میں بچوں کو لے کر آرہے ہیں اور سپورٹس کے مقابلے کروا رہیں تاکہ ان کے اندر پوزیٹو ایکٹیویٹز ہوں ہم ان کو ایڈوینچر کی طرف لے کر آرہے ہیں۔ ٹرپ ٹور کی طرف لے کر جارہے ہیں اور اس کام کو کرنے کیلئے ہم نے چار کام کیے۔ پہلا کام ہمارا تھا کہ ہم ان کو recruit کریں ہم نے ایک بہت بڑا ٹارگٹ رکھا سوچ کر ہی آدمی پریشان ہوتا ہے کہ دس لاکھ لوگوں کو تین سالوں تک جس میں نوجوان اور بچے سب شامل ہیں ان کو کسی پلیٹ فارم پر recruit کریں گے تاکہ ہم پاکستان میں ایک dedicated, passionate لوگوں کا گرہ تیار کر سکیں۔ الحمدللہ ہم نے اس کے لیے ایک سسٹم بنایا آن لائن پوٹر بنایا اور اس میں اب تک پندرہ ہزار لوگ رجسٹر ہوچکے ہیں یہ کام ہم نے 25 ستمبر کو شروع کیا تھا اور ہم توقع کرتے ہیں کہ اس سال تک ہم اس کو دو لاکھ تک لے جائیں گے اس طرح سے ہم وہ لوگ جو پاکستان کے لیے کمانا چاہتے ہیں ان کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں ان کو امید دلانا چاہتے ہیں مجھے سچی بات یہ ہے کہ آپ کے علم میں بھی یہ بات ہے میرے علم میں بھی یہ بات ہے کی لیٹیسٹ سروے یہ بتاتا ہے کہ 94 فیصد لوگ پاکستانی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں ان کے اندر خواہش ہے اور صرف پاکستان سے نہیں باقی ممالک سے بھی اور اس کی جو وجوہات ہیں اس میں ایک مالی وجہ ہے اور دوسری معاشرتی حالات سے متفق نہیں ہیں خوش نہیں ہیں تو ہم ون کے اندر ایک امید پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں اس ملک میں رہ کر بھی آپ کچھ کرسکتے ہیں الحمدللہ یہ ہمارا پہلا پروگرام ہے اور اس کا دوسرا سٹیپ جو ہے وہ یہ کہ ہم ان میں skills develop کرنا چاہتے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا جو بنو قابل جس میں پہلے دس ہزار بچے پھر بیس ہزار پھر تیس ہزار بچے اور پھر لاہور میں پھر اسلام آباد اور اب ہم نے گورنمنٹ سے مل کر ایک لاکھ پشاور میں بچوں کی تعلیم تربیت کا بندوست کررہے ہیں یہ چیریٹی آرگنائزیشن کا کام نہیں ہوتا لیکن ہم اسے سوشل ڈیولپمنٹ کے تحت ان کی skill development کررہے ہیں ابھی بھی لاہور کے اندر تین دن پہلے ہم نے ان کی چیٹ جی پی ٹی میں ان کی ٹریننگ کروائی جو بھی ہم کام کرسکتے ہیں ہم کررہے ہیں پھر ہم نے کہا کہ ہم نے ان کو انگیج کرنا ہے الحمدللہ پچھلے سال لاہور میں ہم دولاکھ پودے لگائے سو فیصد اس کی رقم جو ہے اس کی وہ ہمارے بچوں نے اکٹھی کی سو فیصد لگانے میں انہوں نے ہماری مدد کی اور وہ بہت خوش ہوئے جب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لاہور کی سڑکوں پر پارکوں میں پودے لگائے اسی طریقے سے اب رمضان آرہاہے تو ہم نے آسان افطار کے نام سے روز شام کو پچاس مقامات پر لاہور کے اندر لوگوں کو افطاری کرواتے ہیں اسی طرح سے ہم نے بچوں کے درمیان یہ کیا کہ آپ آئیں اور انٹرن شپ ہمارے ساتھ کریں الحمدللہ ہم ان کو سینکڑوں مختلف ایکٹیویٹز ہیں ان کے اندر ان کو انگیج کرتے ہیں۔
اور آخری کام ہم ان کے ساتھ یہ کرتے ہیں کہ ہم ان کو ریٹرن بھی کرتے ہیں آپ کو سرٹیفکیٹ ملے گا آپ کو سی وی بہتر ہوگا آپ کے اندر لیڈر شپ بہتر ہوگا الحمدللہ بچے آج بھی آتے ہیں ہر ہفتے میں دو دن بلاتے ہیں تیس بچوں کی کلاس بناتے ہیں کل ایک سو اسی بچوں نے اس کے لیے اپلائے کیا یہ ہمارا تیسرا کام تھا الحمدللہ ہم ان کو اور بھی بہت سارے شارٹ کورسز پھر اور بے شمار چیزیں ہم ان کو ریٹرن کرتے ہیں رب العالمین کا کرم ہے کہ ہم یہ کرتے ہیں۔ میں اپنی تیسری بات مکمل کرچکا ہوں اور آخری بات کہہ کر آپ سے اجازت لوں گا کہ دوستو یہ ہم سارے کام خود کرتے ہیں میں بھی اپنے کام خود کرتا ہوں خود ہی پڑھتا ہوں خود ہی لکھتا ہوں خود ہی بزنس سیٹ کرتا ہوں خود ہی فیکٹری جاتا ہوں سارے کام خود کرتا ہوں لیکن میں اپنی آخرت کے لیے کیا کرتا ہوں رب العالمین کے آخری پیغمبر نے یہ فرمایا ہے کہ تین چیزیں ہی مرنے کے کام آتی ہیں اس میں کسی مل کا نام نہیں کسی فیکٹری کا نام نہیں کسی کار کا نام نہیں اور ان کی بات غلط نہیں ہے اور ہمارے مقدر کی بات ہے کہ ہماری اولاد میں وہ خوبیاں ہوں جو ہم چاہتے ہیں اور بہت سے لوگ اس معاملے میں کامیاب بھی ہیں اور پھر دوسری بات وہ کوئی کام نہیں صدقہ جاریہ آپ کے شہر میں بیسیوں جگہیں ہیں جو لوگوں نے اپنی جیب سے لگائے اور آج وہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے اور لاہور کے اندر پوری دنیا میں لوگوں نے ایسے کام کیے ہندوؤں نے بھی کیے اور سکھوں نے بھی کیے سب نے کیے۔ اس لیے کہ ان کا کیا نظریہ ہے ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ یہ صدقہ جاریہ ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ اپنے لیے اپنی آخرت کیلئے کر کے جانا چاہیے اور اپنے بچوں پہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے کوئی اچھے نیک لوگ ہوں تو والدین کے مرنے کے بعد سال میں ایک یک دو بار ختم دلوا دیا تو ان کی مہربانی ہوتی ہے ورنہ ایک دو نسل کے بعد بھول جاتے ہیں لیکن وہ آدمی جس نے بڑے پیمانے پہ کام کیا ہوتا ہے کوئی نہ کوئی کام کوئی کنواں میں نے سنا ہے مجھے پتا نہیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں آج بھی ایک بل حضرت عثمان کے نام سے آتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کوئی چیز انہوں نے اللہ کے نام پر دی تھی تو آج تک ان ہی کے نام سے چلتی آرہی ہے آج بھی آپ مدینہ میں جاکر دیکھیں بڑی بڑی عمارتیں ہیں جو ٹرسٹ کے نام پر ہیں ہر شہر میں ملتی ہیں گزارش یہ ہے کہ یہ کام اپنے حصے کا خود کریں بلکہ اپنے وارثوں پر نہ چھوڑیں۔ وارث کریں نہ کریں ان کی مرضی ہے لیکن ہم نے اپنا کام خود کرنا ہے جہاں باقی سارے لوگ کرتے ہیں میں بس انہیں الفاظ کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا اس امید کے ساتھ کہ یہ جو ہم سیالکوٹ میں دو تین سو بچوں کی کفالت کی ہے تو دو تین ہزار ایسے ہیں جن کی جیبوں میں درخواستیں موجود ہیں اور ہم ان کی کفالت نہیں کرسکتے تو میرے دل میں یا آپ کے دل میں اتنی سختی نہیں ہوسکتی کہ کسی یتیم کو کہ وہ آس لے کر آئے کہ میری کفالت ہوگی اور ہم انکار کر دیں ابھی ہم کل گوجرانولہ میں تھے تو انہوں نے اناؤنس کیا کہ ان شاءاللہ ہم وہ وقت لے کر آئیں گے کہ جس دن گوجرانولہ میں کوئی بھی یتیم ایسا نہیں ہوگا جس کی کفالت کوئی نہیں کرسکتا اور اللہ کے رسول نے فرمایا کہ سب سے بہتر وہ گھر ہے جس میں کسی یتیم کی کفالت ہوتی ہے تو ہمارے بے شمار بچے صبح سکول جانے کی بجائے ناشتہ کیے بغیر سائیکلوں کی دکان پر جاتے ہیں اور چھوٹے کام کرتے ہیں کاش ایسا نہ ہو اسی دن ہمارا گھر خوبصورت ہوگا جب ہم پر اللّہ کا کرم ہوگا جب ہم یتیم بچوں کو اسی طریقے سے پالیں گے جس طرح ہم اپنے بچوں کو پالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ان یتیم بچوں کی ضرورت مند بچوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس عمل سے خوش ہو جائے،آمین۔ اسی طرح دعائیہ کلمات کے ساتھ مجمے کا اختتام ہوا۔ آپ سے درخواست ہے کہ ہمارا یہ پیغام آگے پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔ شکریہ
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاونڈیشن پاکستان