Taawun

سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ اور پانچ اہم باتیں

Seerat-Un-Nabi-Life-of-the-Prophet-Muhammad.png

ہم  ہر سال 12 ربیع الاول کونبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم   کا  یوم ولادت مناتے ہیں۔ اس روز بہت ساری تقریبات کا بھی اہتمام  بھی کیا جاتا ہے، جوہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ان تقریبات میں نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی    زندگی کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے اور اور ان کی زندگی کس طرح سے گزری اور کس طرح سے انہوں نے اپنی دعوت کو آگے  پہنچایا،یہ سب باتیں بیان کی جاتی ہیں۔

میرے نزدیک نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بارے  گفتگو کرنا اور سننا دونوں ہی باعث اجر ہیں۔ان پر درود بھیجنے کا حکم تو ہمیں قرآن خود دیتا ہے۔نماز میں ہم ان پر درود بھیجتے ہیں اور درود کے ساتھ ساتھ سلام بھی بھیجتے ہیں۔

یہ بھی ایک حکم ہے کہ  جب بھی ہم آپ ﷺ  کا نام لیں تو آپ  ﷺ  پر درود و سلام بھیجیں ۔اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ہم کسی محفل میں نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی   زندگی بارے گفتگو کرتے ہیں تو یہ ایک انتہائی احسن بات ہے اور جس کا اجر بھی ہمیں ضرور ملے گا۔

نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق    گفتگو یقینا باعثِ  اجر  بات ہے، احسن بات ہے، ضرور کرنی چاہیے۔

سیرت کے مطالعے  کا دوسرا پہلو یہ ہے کی صرف بات کرنا ہی مطلوب نہیں تھا۔صرف آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے، آپ ﷺ کے فضائل بیان کیے جائیں،  یہی  مقصود نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی آخری خطبہ میں فرمایا تھا کہ میں آپ لوگوں  میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ایک قرآن اور دوسری  میری سنت۔

اس لئے ضروری ہے کہ ہم جہاں قرآن سے راہنمائی لیتے ہیں وہیں پر ہمیں  سنت سے بھی راہنمائی لینی چاہیے اور ان تمام احکامات کی پابندی کرنی چاہیے، جس کانبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم   ہمیں حکم دیا ہے۔

اس لحاظ سے میں اگر دیکھوں تم مجھےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بات کرتے ہوئے، ان کی سیرت پر گفتگو کرتے ہوئے پانچ باتیں جاننے کو ملتی ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ مجھے یہ جاننے کو  ملتا ہے کہ  آپ ﷺ کی زندگی کیسی تھی؟ آپ ﷺ کہاں پیدا ہوئے؟ آپ ﷺ کا گھرانا کیسا تھا؟ آپ ﷺ کا قبیلہ کیسا تھا؟ آپ ﷺ کا بچپن اور باقی عمر کیسی گزری؟ آپ ﷺ کے خانگی معاملات کیسے تھے؟ شادیاں کیسے کی؟ بچے کتنے ہوئے؟  یہ سب کچھ ہمیں جاننے کو ملتا ہے۔

اس کے بعد دوسری بات ہمیں یہ جاننے کو ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی اس معاشرے نے آپ ﷺ کے ساتھ نبوت سے پہلے کیا سلوک کیا اور نبوت کے بعد کیسا برتاؤ کیا؟

کس طرح سے انہوں نے آپ ﷺ کو امین اور صادق مانا اور پھر کس طرح سے انہوں نے آپ ﷺ کو جھٹلایا اور مجبور کیا کہ آپ ﷺ اپنا آبائی شہر چھوڑ کر دور ایک شہر  چلے جائیں ۔ظلم و زیادتی کا کوئی ایسا کام نہیں تھا جو انہوں نے نہ کیا ہو۔

تیسری بات ہمیں یہ جاننے کو ملتی ہے کیا آپ ﷺ نے ان حالات کے اندر اللہ کے پیغام کو آگے پہنچانے کے لئے کس طرح سےلوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا؟مخالفین سے کیسا برتاؤ کیا ؟دوستوں کے ساتھ کیسی دوستی نبھائی ؟جنگ ہو یا  کوئی معاہدہ ،اسکوکیسے کیا؟کس طریقے سے آپ ﷺ نے دیگر قبائل سے تعلقات قائم کیے اور اپنی  دعوت کو عرب سے باہر تک پھیلایا؟

چوتھی بات ہمیں یہ جاننے کو  ملتی ہے کہ جب اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو جس شہر سے آپ ﷺ کو نکالا گیا تھا اسی  شہر میں آپ  ﷺ کوبطور فاتح داخل  کیا تو پھر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے ساتھ جو  آپ ﷺ پر ظلم کرتے  تھے کیسا سلوک کیا؟کس طریقے سے اسلامی نظام کو نافذ کیا اور کس طریقے سے اس کی برکات سے لوگوں کو مستفید کیا؟  یہ بھی ہمیں آپ ﷺ کی سیرت کے مطالعے سے ہی  جاننے کو ملتا ہے۔

پانچویں بات  جو ہمیں  جاننےکوملتی ہے  وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو کیسے گزارا؟ وہ کھانا کیسے کھاتے تھے؟ اٹھتے بیٹھتے کیسے تھے؟ بول چال کیسے کرتے تھے؟ معاملات کیسے دیکھتے تھے ؟یہ سب کچھ ہمیں آپ ﷺ کی زندگی سے جاننے کو ملتا ہے۔اس کے علاوہ بھی ہمیں بہت کچھ آپ ﷺ کی زندگی سے جاننے کو ملتا ہے۔

میں یہاں ایک بات  کہنا چاہوں گا  کہ صرف آپ ﷺ کی زندگی کو جاننا کافی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔ لیکن یہ مقصود نہیں ہے ۔ مقصود تو یہ ہے کہ ہم ان کی سنت پر عمل کریں ان کی کہی  ہوئی باتوں کو اپنی زندگی کا جزوبنالیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کریں۔یہی آپ ﷺکی بعثت  کا مقصد اور مطلوب ہے۔

یہ شاید ہمارے اکثر لوگوں کے لئے ممکن نہیں کہ ہم ان کی ہر بات کی پیروی کر سکیں۔ہم کمزور اور نادار انسان ہے،  غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ عمل میں  کوتاہی کی معافی تو ہوسکتی ہے، لیکن ان کی کہی ہوئی بات کا انکار  کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے۔

اگر ہم یہ طے کر لیں کہ ہم ہر عید میلاد النبی کے موقع پر ان کی کسی ایک سنت کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں گے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی اصل حاصل ہوگا۔

اس موقع پر کوئی ایک حکم جو آپ ﷺ نے دیا ہو  اسکو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو یہ ایک بڑی ہی کامیابی کی بات ہوگی۔

میں مثال کے طور پر یہ بات بیان کرتا ہوں  کہ اگر ہم یہ طے کرلیں گے ہم جھوٹ نہیں بولیں گے، تو یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہوگا اور اس کا بے حد اجر  بھی ہوگا۔اور جب ہم اس پر  سنت سمجھ کر اس پر عمل کریں گے، تو اس دوہرا فائدہ   ہوگا ۔

ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی سنت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ طے کر لیں کہ ہم اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ صلہ  رحمی کریں گے،ان کی غلطیوں کو معاف کریں گی، ان کی خدمت کریں گے، ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی کوشش کریں گے،  انشاء اللہ اس سے بھی ہمیں دوہرا  فائدہ  حاصل  ہوگا ؛ایک لوگوں کی کی خدمت کا اور دوسرا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کا۔

میرے خیال میں یہ بہترین طریقہ کار ہے جسے ہم اپنا کر نبی پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم   کی دعوت کو جان بھی سکتے ہیں اوراس پر عمل کرکے  ایک بہترین زندگی گزار سکتے ہیں اوراپنے عمل سے اسے دوسروں تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔

اللہ کرے کہ ہم ایسا  کر پائیں!

 آمین ثم آمین !

ڈاکٹر محمد  مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن پاکستان

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *