Phr Chala Musafir

تبصرہ: پھر چلا مسافر، دو جلدوں پر مشتمل: ایک منفرد سفر نامہ

Book-Review-Phr-Chala-Musafir.png

پھر چلا مسافر دو جلدوں پر مشتمل : ایک منفرد سفر نامہ

ایک جلد میں ایران جرمنی میانمار ، نیپال، قطر اور روم کا تذکرہ جبکہ دوسری جلد میں گلگت بلتستان کے سفر کا احوال۔

جسے عاصم پبلیکیشنز لاہور نے بڑے اہتمام سے دو جلدوں میں شائع کیا ہے اور یہ دونوں جلدیں رنگین تصاویر سے بھی مزین ہیں۔

جلد اول 175 صفحات پرجبکہ جلد دوم 150 صفحات پر مشتمل ہے ۔

ڈاکٹرمانگٹ صاحب اس سفر نامے میں اپنے مشاہدات کو مختصر اًبیان کرتے ہیں۔ مانگٹ صاحب جہاں بھی گئے انھوں نے اس ملک اور علاقے کی تاریخ، اس کے جغرافیے، وہاں کے میدانوں، کھیتوں ،درختوں اور پہاڑوں تذکرہ ضرورکیا ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس تصنیف کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ قارئین کو ان علاقوں کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور معاشرت سے بھی آگاہ کیا جائے جہاں لوگ صرف قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں۔ مزید برآں تاریخ کی مفید معلومات پہنچانا اور لوگوں کے دلوں میں سیر و سیاحت کا زیادہ سے زیادہ شوق پیدا کرنا بھی میرا مقصد ہے‘‘۔

ضمنی عنوانات میں انھوں نے مختلف مقامات، بازاروں، عمارتوں، مساجد، گرجاگھروں ، گردواروں، مندروں اور محلات وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔

مانگٹ صاحب نے 2012 ءمیں چیک رپیبلک کی ایک یونیورسٹی سے ٹیکسٹائل میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اس سے قبل وہ

2008 ء میں مانچسٹر یونیورسٹی سےایم فل کر چکے تھےاور اس سنگ میل کو عبور کرنے سے پہلے انھوں نے لاہور کی یونیورسٹی، یو ایم ٹی سے ایم بی اے کی ڈگری میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ ان تمام مہارتوں کو انھوں نے اپنے کاروبار میں بھی استعمال کیا اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں منعقد ہونے والی کئی کانفرنسز میں شرکت کرکے انکا پرچار بھی کیا ۔

اُنکے سفر میں بہت سی دلچسپ باتوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے لکھا کہ’’ میانمار کے شہر رنگون میں سڑکوں پر موٹر سائیکل نظر نہ آئی۔ معلوم ہوا کہ چند سال پہلے کسی مسئلے پر احتجاج کرنے والے موٹر سائیکل سواروں نے ایک حکمران جنرل (جو اپنی گاڑی میں جا رہا تھا) کا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔ جنرل نے ایک حکم کے ذریعے شہر بھر میں موٹر سائیکل پر پابند لگا دی، جو اب تک جا رہی ہے۔ اب تنگ گلیوں میں تو موٹرسائیکل نظر آتی ہے لیکن مین سڑکوں پر نظر نہیں آتی۔

گلگت اور بلتستان کی سیاحت کے دوران بھی وہ بہت سے مقامات سے گزرتے ہیں اور ہر ایک کا تعارف ماضی وحال سمیت پیش کرتے جاتے ہیں ۔ میں کچھ شہروں کے نام لکھنا چاہتا ہوں؛ ہری سنگھ کا بسایا ہوا شہر ہری پور، ایبٹ آباد میں الیاسی مسجد، کاکول اکیڈمی، مانسہر،ہ بالاکوٹ سید احمد اور شاہ اسماعیل کے مزار، شنکیاری ، بٹل، تھاکوٹ بٹگرام ،بشام ،داسو، چلاس، دیامیر بھاشا ڈیم، جگلوٹ، نانگا پربت، علی آباد، ہنزہ، التت قلعہ، ہنزہ میں اسلام آباد آغا خان فاؤنڈیشن، عطاء آباد اوران کے علاوہ بھی کئی اور اہم مقامات کا بھی ذکر بھی ان سفر ناموں میں کیا گیا ہے۔

عطاء آباد جھیل کیسے وجود میں آئی ؟ اور وہاں پر پھٹے پرانے کپڑوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا تذکرہ بھی ان میں موجود ہے۔

ان مزدوروں کو دیکھ کر مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ مجھے اپنے والد محترم یاد آگئے ، وہ بھی اسی طرح پھٹے کپڑوں میں اور ننگے پاؤں مزدور ی کرتے تھے‘‘۔ وہ سب دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئےاور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کے لیے دعا نکلی ۔ اللہ نہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین!

آپ کتاب پڑھنا شروع کر دیں، تو پڑھتے ہی جائیں گےاور کہیں بھی بوریت محسوس نہیں کریں گے اور آپکو یو ں لگے گا کہ جیسے آپ بھی ان کے ہم سفر ہیں۔

آخر میں یہ بتانا مناسب بلکہ ضروری ہے کی مانگٹ صاحب نے ۱۹۹۶، ۱۹۹۹، ۲۰۰۰ اور۲۰۰۵ ءمیں چار مرتبہ بھارت کا سفر بھی کیا۔ وہ سفر بذریعہ موٹر کار، ٹرین اور ہوائی جہاز تھا ،یعنی ہر طرح کے ذرائع استعمال کیے گئے۔ پہلا سفر اکیلے کیا، دو سفر دوستوں کے ساتھ اور ایک یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ۔ ان اسفار کی روداد بھی انھوں نے چار جلدوں میں شائع کی ہے۔

جس میں انھوں نے معروف شہروں دہلی، بمبئی، چنائی ( بنارس )،امرتسر، چندی گڑھ ،کرنال، دیوبند، ہریانہ ، میرٹھ، حصار، روہتک، انبالہ ، آگرہ ،بھوپال، سورت اور سومنات کے علاوہ کئی غیر معروف شہروں اور علاقوں کو بھی ناصرف دیکھا بلکہ اور ان کے متعلق تفصیلاً بھی لکھا ۔

مختصر وقت میں اتنے زیادہ علاقوں کو دیکھنا ، کارخانوں کو دیکھنا اور پھر کانفرنسز میں بھی شامل ہونا ، ہر لحاظ سے قابلِ ستائش ہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *