حکومتی قوانین اور قوانین خداوند عالم، رب ذوالجلال، خالق دو جہاں: ہم پر دونوں کی پابندی لازم ہے، مگر کیسے؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے حاضر خدمت ہیں۔ ہمارا مقصد معاشرے میں آگہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ قارئین محترم! بحث کا موضوع قوانین سے متعلق ہے۔ ریاستی قوانین اور کچھ قوانین وہ جو خداوند نے ہمارے لیے مقرر کیے۔
جب سے حضرت انسان کی تخلیق ہوئی،ساتھ ساتھ اسے خدا کی طرف سے قانونی رہنمائی بھی میسر رہی اور انسانی معاشرے کو تشکیل دینے اور پر امن بنانے کے سنہری اصولوں سے آشنائی بھی بخشی گئی۔ ریاستی قوانین کیا ہیں؟ وہ قوانین جو ریاست یا حکومت وقت کی جانب سے جاری کیے جائیں مثلاً محصولات کا حصول اور فیکٹریوں کو چلانے کے ضوابط وغیرہ ہیں۔ریاست کو چلانے کے لیے ان قوانین کے مطابق ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ بروقت محصولات کی ادائیگی کریں۔ محصولات کی ادائیگی کے بعد ہماری کوئی ذمہ داری ہوجاتی ہے،بقیہ داخلی اور خارجی معاملات کی نگرانی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
کیا ریاست پاکستان دوکروڑ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا انتظام کررہی ہے یا نہیں؟کیا یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا ہے یا نہیں؟ جو لوگ غربت کی سطر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں،انہیں اوپر لانے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟ یہ سب حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے،میں یا آپ کسی کے سامنے ان امور کے جوابدہ نہیں ہیں۔
میری اور آپ کی ذمہ داری محصولات کی ادائیگی ہے اگر ہم نے اسے ادا کردیا تو ایک ریاست کی طرف سے پر ہماری ذمہ داری تمام ہوئی۔ اسی طرح کچھ قوانین رب کائنات نے متعین کیے ہیں۔ اگر میں کسی ایسی جگہ پیدا ہو گیا کہ میرے ماں باپ کے وسائل وسیع تھے، انہوں نے میری تعلیم و تربیت کا بہترین بندوبست کیا اور میری صحت کا خیال رکھا تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ سب رب کائنات کا میری ذات پر انعام ہے۔ خداوند نے ہمیں اتنے انعامات سے نوازا ہے کہ ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ پاک اپنے دیے گئے انعامات جیسے دولت،شہرت اور رتبہ ،ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ روز قیامت ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
خداوند اپنی نعمتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی میں نے تمہیں عطاء کیا ہے،تم اس میں سے میرے بندے جو لاچار ،کمزور، بیمار، یتیم اور مسکین ہیں ان پر خرچ کرو۔ قرآن کریم میں ساٹھ سے زائد مرتبہ انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور پچیس سے زائد مرتبہ یتیموں کی کفالت کا حکم دیا گیا ہے۔اسی طرح تیس سے زائد مرتبہ زکوٰۃ اور دس سے زائد مرتبہ صدقے کا ذکر ہوا ہے۔ قرآن کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی کئی بار ان باتوں کا ذکر موجود ہے۔
اگر ریاستی قوانین کی بات کی جائے تو میری یہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں، ہر تیسرا شہری غربت کی سطر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہا ہے۔
قارئین محترم! ریاستی قوانین کے مطابق یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے لیکن رب کائنات کے قوانین تو ہر ایک پہ لاگو ہوتے ہیں کہ جو کچھ اس نے ہمیں دیا ہے ہم نے کتنے فیصد اس کی راہ میں خرچ کیا ہے؟ کس قدر خوبصورت بات ہے کہ دینے والا رزق دے کر فرماتا ہے کہ اسے میرے بندوں پہ خرچ کرو۔ اگر تم خرچ کرو گے تو میں تمہیں دنیا و آخرت میں اس سے زیادہ دوں گا۔ وہ ہمیں نوازتا بھی ہے اور جب ہم اللّٰہ کے دیے گئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں تو وہ خرچ کرنے سے کم بھی نہیں پڑتا بلکہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہم خداوند کے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے تو ہمیں اس کا انفرادی طور پہ ہی جوابدہ ہونا ہے ہم سے سوال کیا جائے گا۔
ہر شخص کو خدا مختلف نعمتوں سے نوازتا ہے تو ہر ایک سے اسے عطاء کی گئی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خدا تعالیٰ روز قیامت فرمائے گا کہ میں نے تمہیں بھوکے کو کھانا کھلانے، زکوٰۃ ادا کرنے اور یتیموں کی کفالت کرنے کا حکم دیا تھا تو کیا تم نے کیا ؟اس طرح ہر ایک سے تمام نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ رب کہے گا کہ میں بیمار تھا، بھوکا تھا تم میرا خیال کرنے نہیں آئے، بندہ کہے گا کہ اے میرے رب یہ کیسے ممکن ہے تو خداوند فرمائے گا کہ تمہارے محلے میں فلاں شخص بیمار تھا تم تیمارداری کے لیے نہیں گئے؟ہم سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں اتنا کچھ دیا تھا تو یتیم کی کفالت کے لیے تم نے کیا کیا؟ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تم نے کیا کیا؟ کیا یہ تمام خزانے تمہیں اس لیے دیے تھے کہ تم خود اس پہ قابض ہو کر بیٹھ جاؤ۔ اللہ پاک فرمائے گا کہ تمہیں ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم خرچ کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا۔
قارئین محترم! ریاستی قوانین کی پاسداری ہم پہ فرض ہے اگر ہم یہ فرض ادا نہیں کرتے تو ہم ریاست کے مجرم ہیں اور یہاں سزا کے مستحق ہیں لیکن اگر ہم نے رب کائنات کے قوانین کی پاسداری نہ کی تو اس کی عدالت میں ہمارےپاس کوئی متبادل راستہ نہیں ہوگا۔ رب کائنات اپنے قانون کے مطابق ہمارے لیے سزا اور جزا مقرر کرے گا اور اس کا قانون یہی ہے کہ جو کچھ اس نے تمہیں دیاہے اس میں سے کتنا کچھ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کیا ہے۔ عقل و شعور، صحت، زندگی اور مال و دولت عطاء کیے،تم نے اسے کیسے استعمال کیا؟
خدا کے حضور روز محشر میں اپنی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہم آج اس کی تیاری کرلیں اور اپنے اردگرد اہل و عیال میں جہاں کہیں ضرورت مند نظر آئیں ان کی مدد کریں تاکہ روز قیامت خدا ہماری مدد فرمائے۔ شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان