ہمارا مقابلہ اپنے آپ سے ہے؟ کیا ہم نے کل سے بہتر کامیابی حاصل کی ہے، کیا ہم کل سے زیادہ اپنے ادارے کے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ یہ سب کیسے ہو تا ہے؟
قارئینِ محترم! لفظ ‘مقابلہ’ یا ‘کمپٹیشن’ یقیناً کئی بار آپ کی سماعت سے گزرا ہو گا۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش یا جدو جہد کو مقابلہ کہتے ہیں۔ جب کوئی فرم کام کرتی ہے تو بخوبی اس بات کا علم رکھتی ہے کہ مارکیٹ میں اس کا مقابلہ کس کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی ہے تو وہ بھی یہ ذہن نشین کرتا ہے کہ اس کا مقابلہ کس کے ساتھ ہے ؟ کرکٹ کا میچ ہو تو پوری ٹیم اس فکر میں ہوتی ہے کہ ہمارا مد مقابل کون ہوگا؟ مینجمنٹ کی دنیا میں ان الفاظ کو ذرا مختلف زاویے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے انگریزی میں کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
?Compete yourself, You are your own competitor. Yes or not
قارئین محترم! موضوع بحث یہی ہے کہ ہمارے مد مقابل ہم خود ہیں۔
دنیا میں اربوں انسان پائے جاتے ہیں اور ہر انسان کو خدا نے منفردپیدا کیا ہے۔ اگر آپ کسی لحاظ سے دولت، سٹیٹس یا زندگی کے اور کئی میدانوں میں لوگوں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، اس قدر تنوع ہے کہ آپ اپنے گلی محلے میں مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ اگر نفسیاتی طور پہ یہ دیکھا یا سوچا جائے کہ کیا ہم اتنی بھیڑ میں جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار موجود ہے، ہم کسی کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے، اگر ہم کسی میدان میں کسی ایک کو ہرانے کے قابل ہو بھی جائیں گے تو ہمیں ہرانے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہو گا۔ متعلقہ گفتگو میں میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کا مقابلہ کریں۔
.Compete yourself and you are your own competitor
آپ کا مقابلہ اپنی ذات سے ہے۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ آپ کل کیا تھے اور آج کیا ہیں ؟ کل میں ایک مختلف شخصیت تھی، میری زندگی کے پیرامیٹرز کا معیار مختلف تھا تو آج مختلف ہونا چاہیے۔ آپ اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ آپ کی صحت، مال و دولت اور تعلیم میں کس قدر ترقی ہوئی یا کس قدر فرق آیا اور کیا بہترتی ہوئی وغیرہ۔ مختصراً یہ کہ آپ نے اپنی گزشتہ کارکردگی کا محاسبہ کرنا ہے اور اسی کے مطابق نیا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔
میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ بجائے دنیا کی الجھنوں میں پڑنے سے بہتر ہے کہ آپ محض اپنی کارکردگی کا حساب لیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اسی حوالے سے اشفاق احمد صاحب بھی کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ ہمیں اپنے کردار، اخلاق، معاملات، نیکی اور گفتگو کا جائزہ لینا چاہیے اور اس میں بہتر سے بہترین کی جانب کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔
میں بھی اپنے آپ سے اور آپ سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذات سے مقابلہ کریں اور دن بدن ترقی کریں۔ غور کریں کہ گزشتہ سال آپ کس مرحلے پر تھے اور آج آپ کہاں کھڑے ہیں؟ اپنی علمی یا کاروباری حیثیت میں فرق جانیں اور مزید بہتری لانے کی کوشش کریں۔ زندگی کے کسی پہلو کی بھی مثال لے لیں جیسے آپ اپنی دولت کا محاسبہ کریں کہ خدا نے اتنی دولت سے نوازا ہے تو میں نے گزشتہ سال خدا کی راہ میں کیا خرچ کیا ؟
قارئینِ محترم! اگر آپ اس فارمولے پہ عمل کریں گے اور اپنی زندگی میں گزشتہ کارکردگی کا محاسبہ کریں گے تو اس قابل ضرور ہو جائیں گے کہ ایک بہتر نیا لائحہ عمل تیار کر لیں گے تاکہ آپ دن بدن ترقی کریں۔ اسی طرح روز بہ روز آپ کی شخصیت نکھرتی چلی جائے گی۔ اگر اپنی ذات کی بات کروں تو میں اللہ کے فضل سے اس فارمولے سے بہت مستفید ہوا ہوں اور کئی اہداف حاصل کیے۔ اگر آپ بھی یہ طے کر لیں گے تو انشاء اللہ آپ کا آج گزرے کل سے بہتر ہوگا۔ شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد مانگٹ
تعاون فاونڈیشن پاکستان