Afghanistan Series

کابل سیریز: کابل کی ایک مشہور نشانی (آخری قسط)

کابل یونیورسٹی:

 کابل یونیورسٹی، کابل کی ایک مشہور نشانی ہے، یہ یونیورسٹی 1932 ء میں بنائی گئی یہ 1960 ء کی سب سے ایڈوانس یونیورسٹی تھی، ہم انگلش ڈیپارٹمنٹ (انگریزی شعبہ) میں چلے گئے، وہاں پر ایک برطانوی خاتون، جو اپنا تعلق ایک این جی او سے بتلارہی تھیں، ہمیں ملیں، وہ افغان طلبا ء  کو انگریزی زبان پڑھانےآئیں تھیں، میں نے یونیورسیٹی، میں بے شمار لڑکیوں کو مغربی لباس اور جینز میں ملبوس دیکھا۔ 1932  ء  میں نادر شاہ کے دور میں اس کا آغاز ہوا تھا اوراس وقت مغربی ممالک سے امداد لی گئی تھی۔گلبدین حکمت یاراور احمد مسعود ، اسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ہیں۔تمام جنگوں میں یہ یونیورسٹی بھی معجزاتی طور پر ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہی ۔طالبان کے دور کے خاتمہ کے بعد اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا،اب یہ یونیورسٹی ایک جدید یونیورسٹی بن چکی ہے ،یونیورسٹی کے دورے سے افغانستان کے ستر کی دھائی کے حالات دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔

کابل کے روایتی ہوٹل:

ہم کھانا تناول کرنے ایک روایتی ہوٹل میں رکے۔ یہ کابل کا ایک  پرانا علاقہ تھا۔آج 9 ستمبر تھا، اس دن احمد شاہ مسعود ایک حملے میں مارا گیا تھا۔آج اس کا یوم وفات منایا جارہاتھا، ہوٹل میں عام طور پر لوگ اسی بارے میں باتیں کررہے تھے ۔وہاں افغانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، لمبے قد کاٹھ اورمضبوط جسم کے مالک افغان کھانے میں صرف گوشت کھاتے ہیں، اور قدرے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں۔

کابل کے بازار:

کھانے کے بعد ہم مختلف بازاروں اور دکانوں میں پھرتے رہے، میں پرانی اور ثقافتی اشیا کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ایک دکان سے میں نے افغانی قالین کا ایک چھوٹا ٹکڑا خریدا۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو پینٹنگ بناتے تھے۔مجھے افسوس ہے کہ ان سے میں کوئی تصویر نہ خرید سکا۔کابل کے بازاروں میں پھرتے ہوئے یوں محسوس ہوا گویا ہم لبرٹی میں گھوم رہے ہوں۔

پاکستان واپسی:

رات ہوٹل میں رکے اور پھر بعد ازاں پاکستان کی جانب روانہ ہوئے۔واپسی پر پھر اسی ڈرائیور کی خوفناک ڈرائیونگ سے واسطہ پڑا، لیکن بہرحال دورہ کابل بہت مفید رہا اس سے نا صرف میری دلی خواہش کی تکمیل ہوگئی۔بلکہ میری معلومات میں بھی بہت اضافہ ہوا، کچھ چیزوں کو میں نے صرف سنا تھا اب ان کو دیکھ کر بھی آرہا تھا ۔

افغانستان، جو عالمی طور پر شہرت یافتہ ملک ہے اورمسلسل کئی سال سے حالت جنگ میں ہے، اگر اس پتھر کو تراشا جائے تو اس میں ہیرے کی چمک پیدا ہوسکتی ہے ۔خوبصورت یادوں اور نیک تمناوٗں کے ساتھ میرا سیاحتی دورہ مکمل ہوا، ایک دفعہ پھر تفصیل سے کابل کی سیاحت کی تمنا ہے، جو اللہ کرے جلدی پوری ہو۔ اس دفعہ توپشتو سیکھ کر جاؤں گا تا کہ وہاں کے لوگوں سے ان کی زبان میں بات کر سکوں۔

اللہ افغانستان کو اسلام امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔(آمین)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *