الخدمت فاؤنڈیشن گلگت بلتستان نے 12 اگست 2024 کو نوجوانوں کے لئے ایک پروگرام ترتیب دیا تھا، جسے انہوں نے الخدمت یوتھ گیدرنگ کا نام دیا۔ اس پروگرام میں ان کے ساتھ گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی میں مصروف جی بی رولر سپورٹس پروگرام(GBRSP) بھی شریک تھا ۔ مجھے اس پروگرام میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس پروگرام میں شرکت کے لئے میں نے گلگت بلتستان کا چار روزہ سفر کیا اور اس سفر کی ایک مختصر روداد آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
لاہور سے گلگت
گیارہ اگست 2024 ءکو گلگت جانے کے لئے صبح 3:30 لاہور سے نکلے اور کوئی پونےآٹھ بجے کے قریب اسلام اباد ایئرپورٹ پر پہنچ گیا۔ فلائٹ کا ٹائم ساڑھے نو بجے کا تھا، ایئر پورٹ پر جا کر پتا چلا کہ فلائٹ سوا دس بجے جائے گی۔لیکن کچھ دیر کے بعد معلوم ہوا کہ فلائٹ مزید دیر سے جائے گی اور اب ایک بجے کا وقت ہے۔اس لئے تقریبا کوئی چار گھنٹے تک ایئرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہ وقت تزکِ جہانگیری کتاب پڑھنے میں گزارا۔بارہ بجے کے قریب چیک ان شروع ہوا اور ہم کوئی ڈیڑھ بجے کے قریب ہوا میں بلند ہوگئے۔
اسلام اباد سے گلگت کا سفر تقریبا پچپن منٹ کا ہے۔جہاز اسلام آباد سے نکل کر ہزارہ اور کوہستان سے ہوتا ہوا، گلگت پہنچتا ہے۔ گلگت کے ائیر پورٹ پر الخدمت فاؤنڈیشن کے مقامی ساتھی منتظر تھے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ سفرخیر و عافیت سے ہوا۔ اگر یہ جہاز نہ ملتا تو ممکن نہیں تھا کہ میں وقت پر گلگت پہنچ پاتا۔
اسلام آباد سے گلگت تک پرواز ایک منفرد ،لیکن خوف سے بھر پور سفر ہے۔ اس سفر کے دوران حیرت انگیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سفر میں شمالی پاکستان کے ناہموار پہاڑوں اور وادیوں کے شاندار نظارے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس سفر میں ہم قراقرم رینج کا بھی نظارہ کرسکتے ہیں۔ اگر موسم صاف ہو (جو اُس دن نہیں تھا) تو آپ اور خوش قسمت بھی ہوں گے، اور نانگا پربت جیسی مشہور چوٹیوں کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ گلگت ائیر پورٹ چھوٹا اور خطر ناک ہونے کی وجہ سے اس روٹ پر بڑے جہاز نہیں جاتے۔ صرف چھوٹا جہاز جس میں کوئی پچاس مسافر بیٹھ سکتے ہیں، ہی جاتے ہیں۔ گلگت کا ایئرپورٹ چھوٹا ضرور ہے لیکن یہاں تمام تر ضروری سہولیات موجود ہیں۔ موسمی حالات کی وجہ سے فلائیٹ میں تاخیر یا اس کا منسوخ ہونا ایک عام سی بات ہے۔ اس کی وجہ گلگت میں موسم کا غیر متوقع ہو نا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کی فلائیٹ وقت پر آپ کو لے جائے تو یہ سفر آپ کے لیے مجموعی طور پر ایک یادگار سفر ہوگا۔
یتیم بچوں کے ساتھ یومِ آزدی
الخدمت فاؤنڈیشن کے دوستوں نے بتایا کہ ہم نے یتیم بچوں کے لئے یوم آزادی کی مناسبت سے ایک پروگرام رکھا ہوا ہے، سب سے پہلے ہمیں وہاں جانا ہوگا۔اس طرح سے ہم ایک سرکاری اسکول میں منعقد ہونے والے پروگرام میں چلے گئے۔ یتیم بچوں اور ان کی ماؤں سے مل کر ہمیشہ ایک اداسی بھی محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ہی حوصلہ بھی۔ انہیں دونوں کیفیات کے ساتھ میں ہمیشہ ایسے پروگرام میں شرکت کرتا ہوں۔ پروگرام کے بعد دریائے گلگت کے کنارے ایک ہوٹل، جس کا نام ریویریا ہے، میں کچھ دیر آرام کرنے کے لئے چلے گئے۔کچھ کام کیا کچھ آرام کیا۔مغرب کے بعد رانا طاہر تشریف لائے اور ان کے ساتھ کھانا کھانے باہر چلے گئے۔
گلگت کی گوالمنڈی اور پرانی اسمبلی کی عمارت، یادگار شہدا گلگت بلتستان
دریائے گلگت کے مشرقی کنارے پر بہت سارے ریستورانس کھل چکے ہیں۔اس لئے اسےگلگت کی فوڈ سٹریٹ کہنا بے حد مناسب ہے۔ اگر ہم اسے لاہوری زبان میں کہیں تو یہ وہاں کی گوالمنڈی ہے۔ اس سڑک پر کئی پرانی عمارتیں بھی موجود ہیں جن میں پرانی اسمبلی کی عمارت بھی ہے۔
پرانی اسمبلی کا افتتاح 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ اس بارے ایک تختی بھی لگی ہوئی ہے۔ اس عمارت میں کئی وزراء کے دفاتر بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور عمارت بھی ہے۔ یہ ایک بڑا کمپاؤنڈ ہے۔ جس میں کافی پرانے درخت بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسی احاطہ کے ایک کونے میں شہداء کی ایک خوبصورت یاد گار بھی بنی ہوئی ہے۔
اس عمارت کا افتتاح گلگت بلتستان کی تاریخ کا یہ اہم واقعہ ہے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں انضمام کے بعد گلگت بلتستان کے لیے ایک نیا مربوط گورننس کا نطام وضع کیا گیا۔ ایک مدت تک یہ عمارت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے ایک نئی عمارت بنائی گئی۔ اب ا س عمارت میں بڑے پروگرام ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ عمارت فن تعمیر کے نُقطَۂ نَظَر سے بھی ایک خوبصورت عمارت ہے۔تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اس عمارت میں کئی اہم قوانین بنائے گئے۔ یہ عمارت نہ صرف اپنی تعمیراتی حسن بلکہ گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں اس کے اہم کردار کی وجہ سے بھی تاریخ میں ایک مقام رکھتی ہے۔ میں نے جو دیکھا ہے ا سکے مطابق گلگت بلتستان حکومت نے اس طرح کی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ایک قابلِ داد کوشش کر رہی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اب یہ عمارت بنیادی قانون سازی کے مقام کے طور پر کام نہیں کررہی ۔ لیکن یہ خطے کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم نشان اور یاد دہانی کےطور پر ضرور جانی جاتی ہے۔ یہاں پر سب کو آنے کی اجازت نہیں ہے،البتہ باہر سے آپ عمارت کی تصویر لے سکتے ہیں۔
گلگت میں آزادی کے شہداء کی یاد میں ایک خوبصورت یادگار بنائی گئی ہے۔ یہ یادگار گلگت بلتستان کے ان شہداء قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے تعمیر کی گئی ہے جنھوں نے تقسیم ہند کے وقت جب یہاں ڈوگرا راج تھا ،سے آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی۔ میں اس عمارت کو دیکھ نہ سکا۔ جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ بعض اوقات مقامی ساتھیوں کے ترتیب دیئے گئے پرو گرام کی وجہ ے ایسا ہوتا ہے۔
کینوپی ریستورانت اور بانسوں سے بنا ایک منفرد ریستورانت
دریائے گلگت کے کنارے ایک معروف ریستورانت کینوپی کے نام سے بھی ہے۔ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے اور کافی سے لطف اندوز ہوئے۔اللہ رب العزت کا شکر ادا کیا۔سامنے دریائے گلگت کی تیز لہریں اور اس کے کنارے خوبصورت ریستورانت ۔گرمی تو تھی لیکن لاہور سے کم، حبس بالکل نہیں تھااور مخلص دوستوں کی محفل، ایک نیک اور عظیم مقصد کے لئے گلگت میں آمد، ان سب نے مل کراس شام کو یادگار شام بنا دیا۔
کافی سے لطف اندوز ہونے کے بعد رانا طاہر صاحب نے کہا کہ ایک نیا ریستورانت کھلا ہے، جو بہت ہی منفرد طریقے سے بنایا گیا ہے، وہاں پر کھانا کھائیں گے۔یہ ریستوران بھی قریب ہی تھا، اس کا پورا اسٹرکچر بانسوں سے بنا ہوا ہے۔باسوں ہی کی منزلیں بنائی گئی ہیں۔ اگر آپ کو اوپر کی منزل میں بیٹھنے کی جگہ ملے تو یہ بہت ہی خوش بختی کی بات ہے۔ہمیں اوپر جگہ نہ مل سکی اس لئے ہم اس کے لان ہی میں بیٹھ گئے
گلگت میں فوڈ سٹریٹ مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کے لیے ایک خوبصورت مقام ہے، جہاں مختلف قسم کے لذیذ مقامی اور روایتی پاکستانی کھا نے ملتے ہیں۔ یہ دریائے گلگت کے کنارے واقع ہیں۔ یہاں بہترین کھانوں کے ساتھ ایک خوبصورت منظر بھی دیکھنےکو ملتا ہے۔یہاں آپ مقامی پکوان جیسے کباب، چپلی کباب، اور تازہ بنی ہوئی روٹیوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ علاقہ بے حد خوبصورت ہے، خاص طور پر شام کے وقت۔ اگر آپ گلگت میں آئے ہیں تو کھانوں اور ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ یقینی طور پر ایک اہم جگہ ہے۔شام کے وقت یہاں بے حد رش ہوتا ہے۔ مقامی لوگ اپنے خاندانوں سمیت یہاں آتے ہیں۔ ہم ان تمام تعمتوں پر اللہ سبحان وتعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کوئی گیارہ بجے کے قریب واپس اپنے ہوٹل میں آگئے۔