ایک عبارت میں نے کہیں پڑھی وہ یہ تھی۔
Let me tell you a Secret:
IF YOUR SALARY IS YOUR ONLY SOURCE OF INCOME, YOU’RE ONE STEP AWAY FROM POVERTY.
میں چوکنا ہو گیا۔ اور اس کا ترجمہ بھی بڑا سادہ سا ہے آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ اگر آپ کا آمدن کا ذریعہ صرف اور صرف تنخواہ ہے توآپ غربت سے صرف ایک قدم ہی پیچھے ہیں۔
کیا یہ بات درست ہے؟ میں اس کوپورے یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بات بہت ہی درست ہے۔ لوگوں کی بہت اچھی بھی تنخواہ ہوتی ہے لیکن خدانخواستہ جس دن کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجائے مثلاًکمپنی کو یا آپ کا وہاں پہ کوئی مسئلہ ہو جائے تو خودبخود کیا ہوتا ہے؟ کہ آپ غربت کی لکیر پر آجاتے ہیں۔
جب میں نے 1981 ء میں نوکری کرنا شروع کی تو ایک بہت چھوٹی تنخواہ پہ کی لیکن میں نے کسی بھی تنخواہ پر کام کرنےوالے فرد کو بہت زیادہ خوشحال نہیں پایا بھلے اس کی تنخواہ لاکھوں میں ہو۔ وہ ایک بجٹ کے ساتھ زندہ رہتا ہے اور اس بجٹ کے ساتھ ہی اس نے زندہ رہنا ہوتاہے۔ اور اگر گھرکے اندر کوئی غیر متوقع خرچہ آگیا یا کمپنی کی طرف سے کوئی معاملہ ہو جائے تو سب سے بڑا مسئلہ ان کو فوری طور پر بن جاتا ہےاور وہ غربت کی لکیر پر چلے جاتے ہیں بلکہ بعض تو بہت نیچے چلے جاتےہیں۔ میں نے ایسےبے شمار لوگوں کو دیکھا ہے۔ کاروبار میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن صرف اور صرف تنخواہ پر زندہ رہنا بہت خطرناک ہے ۔
میں اپنے اردگرد جتنے بھی دوستوں کو دیکھتا ہوں جو تنخواہوں پر کام کرتے ہیں ۔ہمارے ایک دوست اخلاق احمد خان صاحب ہیں۔وہ بڑی دیر سے تنخواہ پر کام کررہے ہیں۔ دو چار دفعہ میری ان سے اس حوالے سےبات ہوئی۔ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے پہلے دن سے ہی یہ طے کر لیا تھا کہ تنخواہ کا اتنا حصہ میں نے اپنے کسی بزنس میں لگانا ہے ۔تو میں پیسے اکٹھے کر کے کوئی نہ کوئی چھوٹا مو ٹاپلاٹ لے لیتا تھا پھراور اکٹھے کر لیتا تھا اور کرتا رہتاتھا ،کسی جگہ پر سرمایہ کاری کر دیتا تھا یاکوئی شیئر خرید لیتا تھا۔تو یقینی طور پرمیں نے اپنی تنخواہ کے علاوہ بھی آمدن کا ذریعہ رکھا۔ اور آج میری اگر نوکری چھوٹ بھی جائے تو میں گھر بیٹھ کر ان ذرائع سےاپنی زندگی گزار سکتا ہوں۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ صرف تنخواہ پر زندہ نہ رہیں۔
تنخواہ اور کاروبار۔آپ بھلےتھوڑا کام کریں یازیادہ اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن تنخواہ کے علاوہ کوئی کاروبار ضرور کریں۔ اگر تنخواہ میں سے کوئی چار پیسے بچ سکتے ہیں تو کوئی چیز خرید کر رکھ لیں،کوئی چیز کہیں سے لے کر بیچنا شروع کر دیں کوئی چیز گھر میں بنانی شروع کر دیں۔ یقینی طور پر یہ آپ کو غربت سے بچا سکتی ہیں۔
اس کرونا وائرس کی وباء کے اندر سب سے زیادہ دقت ان لوگوں کو ہوئی جو تنخواہوں پر تھے ۔ خاص طور پر ہمارے اساتذہ کرام کیونکہ ان کاکوئی اور ذریعہ آمدن نہیں تھا۔میں خود ایسے اپنے دوستوں کو جانتا ہوں جو نوکری کرتے تھے اچانک فیکٹری بند ہوگئی۔ہماری اپنی فیکٹری میں تین سو آدمی کام کرتے تھے۔ فیکٹری بند ہوگئی اور تین سو آدمیوں کو فیکٹری کے اندر سے کتنے مہینوں کی تنخواہ دی جا سکتی ہے؟ یقیناً بہت لمبے چوڑے عرصے کے لیے نہیں دی جا سکتی۔
ابھی ہم خبر سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے اندر ایک بینک کرپٹ ہو گیا ہے۔ اور اس میں تیرہ ہزارملازمین گھروں کو چلے گئے۔ پھر اگر ان کے پاس کوئی دوسرا آمدن کا ذریعہ نہیں ہے توحکومت بھی ان کی مدد نہیں کرتی ۔حکومت بھی ایک خاص حد تک مدد کر سکتی ہے تو پھر خودبخود بہت نقصان ہوتا ہے۔
میں اپنے دوستوں کو خاص طور پر اپنے جوانوں کو یہ مشورہ ضروردوں گا۔ کہ وہ اپنا کوئی نہ کوئی دوسرا آمدن کا ذریعہ ضرور رکھیں۔وہ بھلے تھوڑا ہو یازیادہ ہو اپنی ضروریات کا تنخواہ کے اندر ہی سے گزارہ کریں اسی میں اپنے آپ کو رکھیں ۔اپنا بجٹ اپنی تنخواہ کےمطابق رکھیں لیکن چار پیسے بچا کرکسی اور جگہ ضرور رکھیں۔ چاہے کوئی جگہ لیں ،سٹاک ایکسچینج کے شیئرز لے کر رکھیں،کسی دوست کے ساتھ سرمایہ کاری کر لیں بھلے کوئی بھی کام آپ کر لیں لیکن کوئی نہ کوئی دوسرا آمدن کا ذریعہ ضرور ہونا چاہیے۔اور جن کا نہیں ہوتا وہ بہت تکلیف میں جاتے ہیں۔
میری خاص طور پر نوجوان دوستوں سے یہ گزارش ہے کہ آپ اپنے بجٹ میں سے کچھ نہ کچھ ضرور بچا کر رکھیں۔ دنیا کے امیر ترین ایک شخص ہیں۔ انہوں نے چندنصیحتیں کی ہیں اس میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ پہلے خرچ پھر بچت نہیں ہے، پہلے بچت ہے پھر خرچ ہے۔ پہلے بچانا ہے کہ یہ میں نے یہ بچانا ہے اپنے کل کے لیے اور پھر جو باقی بچے وہ خرچ کرنا ہے ۔ہم اُلٹ کرتے ہیں پہلے خرچ کر لیتے ہیں اگر بعدمیں کچھ بچ جائے تو اس کو اگلے مہینے خرچ کر لیتے ہیں۔
آئیں مل جل کر یہ سوچیں کہ ہمیں اپنی زندگی کی بھی ایک منصوبہ بندی کرنی ہےتاکہ ہم کل کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا سکیں۔کوئی مشکل پیش آئے تو ہمارا کوئی اور بھی دوسرا آمدن کا ذریعہ ہو۔ اللہ رب العزت ہمیں اس زندگی کو بہتر انداز سے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کسی کی محتاجی نہ کرنی پڑے کسی سے مانگنا نہ پڑے۔ ہم دینے والے تو بنیں نا کہ لینے والے ۔ آمین ثم آمین
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان