ہنر کشکول سے بہتر ہے
قوموں کی ترقی کا راز،کشکول نہیں ہنرکیونکہ ہنر کشکول سے بہتر ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کو جو زندگی ملی ہے وہ اسےکسی ہنر کےبغیر گزار دے، اس کو نہ کھیتی باڑی آتی ہو ،نہ لکھناپڑھنا آتا ہو ،نہ کمانا ، نہ سنبھالنا اور نہ کوئی کاروبار آتا ہو۔بہت مشکل ہے کہ بغیر ہنر کہ کوئی شخص اپنی زندگی گزار ے۔
کیا صرف دولت کےسہارے پوری زندگی گزاری جاسکتی ہے؟اگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ جو بہت امیر تھے وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیےاتنا پیسہ اکٹھاکر گئے تھے کہ اس کے سہارےپر وہ زندہ رہتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ دولت کو سنبھالنے کے لیے بھی ہنر کی ضرورت ہے، عقل چاہیے۔
اگر اولاد کے پاس کوئی ہنر دولت کوسنبھالنے کا، بڑھانے کا،اس کومناسب استعمال کرنے کا نہیں ہو گا تو وہ بہت جلد اس دولت کو اجاڑ دے گی۔ ممکن یہ دولت انہیں کسی غلط راستے پر لے جائے۔ کمائی نہ کی جائے تو خزانوں کے کھوہ بھی خالی ہو جاتے ہیں۔
تو کیا ہنر کے بغیر زندگی اچھی گزر سکتی ہے؟کبھی آپ نے غور کیا کہ ایک ہی ادارے کے اندر ایک آدمی لاکھوں میں تنخواہ لیتا ہے اور دوسرا آدمی انتہائی کم تنخواہ پرگزارہ کرتاہے۔ دونوں آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔دونوں کی شکلیں،صورتیں ایک دوسرے سے بہتر ہو سکتی ہیں، ذات برادری بہتر ہو سکتی ہے۔ایک ادارہ ایک کو لاکھوں میں تنخواہ دیتا ہے اور دوسرے کو ہزاروں میں۔
اس کی وجہ کیاہوتی ہے؟
خواتین و حضرات وجہ صرف ہنر ہوتاہے۔ایک کے پاس ہنر ہے اور ایک کے پاس نہیں ۔ہر ادارہ ہنرمند شخص کو ہی ترجیح دیتا ہے وہ برادری ، ذات ، رنگ و نسل کو اہمیت نہیں دیتا۔میرے والدِ محترم اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر آدمی کے پاس ہنر ہو تو وہ جنگل میں جا کربھی اپنی روٹی کما سکتا ہے۔
ہمارے کالج کے سامنے ایک بوڑھا آدمی شہتوت کی ٹہنیوں سے ٹوکریاں بناتا تھا۔ ایک دن وہ کہنے لگا میں کبھی بھوکا نہیں مرا اور نہ کبھی مروں گا۔ اس لیے کہ میں جس بھی درخت کے نیچے بیٹھ جاؤں اس کی ٹہنیاں توڑوں ،اس کی چیزیں بنا کراور بیچ کر میں اپنی روزی روٹی کابندوبست کر سکتا ہوں ،یہ ہنر ہے۔
ایک ان پڑھ آدمی بھی کھیتی باڑی کرتا ہے اور پڑھا لکھابھی۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں دونوں میں بہت فرق ہوگا۔ ایک دنیا کی تحقیق سے فائدہ اٹھائے گا اور دوسرا اپنی روایت کے ساتھ زندہ رہے گا۔ پاکستان میں ابھی تک پچاس فیصدلوگ پڑھے لکھے ہیں ۔ 1950 کے پہلے سروے کے مطابق پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد 10 سے 12 فیصد تھی۔ اور 1953 میں بھارت کے اندر پڑھے لکھوں کی تعداد18 سے 20 فیصد کے درمیان تھی۔
ہم پچھلے 72 سال کے اندر 10 سے 12 فیصد چلےہیں اور 50 تک پہنچے ہیں۔اب 50 فیصدکا سفر اور کرنا ہے۔ بنیادی شرط ہنرسکھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کو کچھ نہ کچھ پڑھنا لکھنا ضرور آتا ہو اور پھر اس کے بعد اس کو ہنر سیکھنا چاہیے۔
خاص طور پر دیہات والوں کے لیے مثال ہے۔ ہمارے دیہات کے اندر کچھ لوگ زمیندار تھے اور کچھ لوگ ہنرمند تھے جن کو ہم کمار ، لوہار ، دھوبی ، جولاہے ، حجام کہتے تھے۔ زمینیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو یہ ہنر مند لوگ گاؤں چھوڑ کر شہروں میں آگئے۔
میں پورےیقین اور اس علم کی بنیاد پر کہتا ہوں ،جس کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دیہات کے اندر زمینداروں کی اولاد جنہوں نے ہنر نہیں سیکھا ۔صرف باپ کے کھیتوں پر ہی اپنی چوہدراہٹ کو جمائے رکھا اور وہ زمین تقسیم درتقسیم ہونے کے عمل سے ختم ہوگی۔ اور اسی گاؤں کاایک حجام کراچی جا کر لوگوں سے ملتا ہے ،ہنر اس کے پاس تھا اور شہر والوں نے اس کے ہنر کی قدر وقیمت کی اور آج وہ مالی طور پر، معاشی طور پر اپنے اس گاؤں کےچوہدری سے کہیں آگےہے۔
اس طرح کی کوئی ایک مثال نہیں ہے ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اگر وہ پاکستان سے باہر بھی گیا تب بھی اس نے زیادہ کمایا۔
ایک حکایت ہے ،کہ ایک گاؤں میں قحط پڑ گیا بارشیں نہیں ہوئیں خشک سالی ہوگئی۔ گاؤں کےدو آدمی ایک چوہدری اور حجام دونوں شہر میں آگئے۔ ایک کے پاس ہنر تھا اور ایک کے پاس نہیں۔ ایک نے اپنی دکان کھولی اور اپنی روٹی کا بندوبست کیا۔دوسرے کے پاس کوئی کام نہیں تھا بس دل ودماغ میں غرور تھا کہ میں چوہدری ہوں میں کوئی چھوٹا کام نہیں کر سکتا۔ پھر وہی ہوا دونوں کے درمیان جو معاشی فرق تھا وہ ظاہر ہو گیا۔
آج بھی دنیا میں ترقی کی بات کرتے ہیں ،تو آپ یہ جان لیجیے کہ ترقی ان لوگوں نے کی ہے،جن لوگوں نے اپنی قوم کو ہنر دیا۔یہ ہنر صرف قوم کے لیے نہیں ہے، آپ کے خاندان کے لیے بھی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا خاندان ترقی کرے، معاشرے کے اندر اس کا مقام ہوتو آپ کو بھی ہنر سیکھنا ہوگا اور اپنی اولاد کو بھی ہنر سکھانا ہوگا۔ ہنر کی ہی قدرہے۔
انشاءاللہ العزیز یہ ہنر اگر ہماری زندگی میں آئے گا ۔تو ہم ایک بہتر باعزت زندگی گزار سکیں گے۔
ہنرمند آدمی کشکول نہیں اٹھائے گا۔ہنرمند آدمی اپنے اوزار اٹھائے گا ۔کشکول وہ اٹھاتا ہے جس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا، وہ کہتا ہے میں دعا ہی دے سکتا ہوں۔اس کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن جس کے پاس اوزار اور ہنر ہوتا ہے اس کے دروازے پہ جا کر ہم بیٹھتے ہیں۔دس دن پہلے ڈاکٹر سے وقت لیتے ہیں اور اس کو پیسے بھی دیتے ہیں۔وہ الیکٹریشن ہو، وہ آرکیٹیکٹ ہو، کوئی بھی ہو ہم اس کے ہنر کی اسے قیمت دیتے ہیں۔
آئیے خود بھی ہنرمند بنیں اور اس ہنر کو مسلسل بڑھاتے رہیں اور اپنے اردگرد اپنے خاندان ، قبیلے ، شہراورپاکستان کے لوگوں کو بھی ہنرمند بنائیں۔تاکہ ہم اس کشکول کو ہمیشہ کے لیے توڑ کر زمین کے اندر دفنا سکیں۔ بہت بہت شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمدمشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان