سموگ (Smog) الفاظ کا ایک مرکب ہے جو ”گرد/دھواں ” اور ”دھند” کا اشتراک ہے۔ آلودہ آب وہوا کی نتیجے میں دھندلائے ہوئے گردو نواح کو سموگ زدہ ماوحول کہا جاتا ہے۔سموگ مختلف خطرناک ذرّات(سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ،PM 2.5 اور(PM10)،گیسوں اور رطوبتوں کی ترکیبات کے نتیجے میں جنم لیتی ہے جودوسرے مقامات کی نسبت عموماً شہروں اور صنعتی علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
گاڑیوں اور کارخانوں کی انجنوں سے نکلنے والی زہریلی گیسوں میں مختلف کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جو ہوا کو آلودہ کرتے ہیں اور سموگ کے بننے کی وجہ بنتے ہیں۔صنعتی علاقوں میں چلنے والی فیکٹریاں،مصنوعات، انرجی پیدا کرنے والی اشیاء،انجنوں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں اور چمنیوں سے نکلنے والا دھواں بھی ہوا میں آلودگی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ہوا میں مختلف ذرّاتی مواد شامل ہوتے ہیں جو کہ مٹی، گیسوں اور دیگرمضر صحت عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں، یہ مرکبات ہوا کی شفافیت کو متاثر کرتے ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بھی آلودگی پھیلانے والی چیزوں کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ بلواسطہ یابلاواسطہ سموگ میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔خشک ہوایا بارش کم ہونے کی صورت میں بھی زمینی ہوا کی گردش متاثر ہوتی ہے،جو بعد ازاں سموگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ موسم سرما میں سموگ کی بڑھتی ہوئی مقدارصحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔غیرموزوں اوقات پر برف باری ہونے سے بھی ہوا میں موجود ذرّات کو زیادہ دیر تک ہوا میں ٹھہرنے کا موقع مل جاتا ہے جوکہ سموگ کی وجہ بنتے ہیں۔برف کے پگھلنے یا پانی کی کمی کی باعث ہوا میں مضرصحت ذرّات کی زیادہ مقدارمعلق ہوجاتی ہے، اور فضا میں خطرناک عناصر کا یہ ٹھہراؤ سموگ کا سب سے بڑاذریعہ بنتا ہے۔جنگلات کا معدوم ہوجانا اور سرسبز علاقوں کی تخلیق کا کم ہونا بھی سموگ کی بڑھتی ہوئی وجوہات میں سے ایک ہے۔
سموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانی صحت پر متعدد منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ریسپریٹری امراض میں اضافہ، آستھما(دمہ)، چھینکیں آنا، نزلہ وزکام اور گلے کے دیگر امراض وغیرہ، اسی خطرناک موسمی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس کے علاوہ حرارت اور ہوا کے معیار میں کمی کے باعث جِلدی مسائل میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں سامنے آرہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زرعی اجناس کی پیداوار میں بھی خاصی کمی واقع ہوتی ہے جو کہ بھوک اور فقر کے مسائل کو جنم دیتی ہے۔
سموگ کا خاتمہ کرناایک چیلنجنگ کام ہے لیکن بروقت مؤثر اقدامات کی بدولت اس پر کافی حد تک قابو ضرورپایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کو صاف ہوا کی اہمیت اورفضائی آلودگی کے نقصانات بارے آگاہی فراہم کرکے اُن میں ماحول اور اپنے گردونواح کو صاف رکھنے کا شعور بیدار کیا جاسکتا ہے۔مستقبل میں نئے پیداواری اور ترقیاتی منصوبے ماحولیاتی آلودگی کو کم سے کم کرنے کے اصولوں کے تحت بنائے جائیں۔بجلی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں ایسی ماحول دوست تبدیلیاں کی جائیں جوکہ آب و ہوا کیلئے بھی کسی طور نقصان دہ نہ ہوں۔اس وقت صنعتی میدان میں کم ایمیشن پیدا کرنے کیلئے بھی سنجیدہ قدم اٹھانا انتہائی ناگزیر ہے۔
شہروں میں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے سے بھی آب و ہوا صاف کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سموگ کے تدارک کیلئے اس موضوع پر علمی تحقیقات کی روِش میں اضافہ کرنا بھی ایک نظریہ ضرورت ہے۔ رینیوایبل انرجی کے منبعوں کو ترویج دینا بھی سموگ کے خاتمے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ سائیکلنگ، برقی گاڑیوں کو فروغ دینے کیلئے انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا اور بڑی تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے رجحان میں اضافے سے بھی سموگ کے ممکنہ خطرات سے بچا جا سکتا ہے۔
حکومتی سطح پر بھی سموگ کوکم کرنے کے لئے کئی اقدامات اُٹھائے جاسکتے ہیں جیسا کہ مختلف ماحول دوست منصوبوں کا آغاز،جوکہ ان اقدامات میں سرفہرست ہے۔ سموگ میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف قانونی پابندیاں اور سزا وجزا کا مکمل نظام متعار ف کروایا جائے۔ سموگ کو کنٹرول کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ ایمیشن کنٹرول ٹیکنالوجی اور ایمیشن کنٹرول انٹلیجنس (EMI) سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے۔ آب و ہوا کو سموگ فری بنانے کیلئے ماحول دوست موضوعات پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے جامع مواقع پیدا کیے جائیں۔
سموگ کا خاتمہ ممکن ہے لیکن اس کے لئے عوام، حکومت اور صنعتوں کو مل جل کراس پرعمل درآمد کرنا ہوگا، پھرہی کہیں جاکر ہم اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور اپنے گردونواح کو خوشگوار رکھنے کے قابل بن سکیں گے۔
محمد اویس ضیاء