میری ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ان کا نام محمد راشد خان تھا وہ پیدائشی امریکن ہیں، امریکہ سے پاکستان آئے ہوئے ہیں تو بیس سال سے زیادہ عرصہ ان کو یہاں پہ ہوگیا ہے۔ ایک فلاحی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں 2009 میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے اپنا نام محمد راشد رکھ لیا۔ ان سے ملاقات ہوئی الخدمت فاونڈیشن میں تو انہوں نے وہاں پہ ایک بہت ہی دلچسپ بات کی جو میرے لیے بہت حیران کن تھی انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آپ کے اور ہمارے قریب بہت سے آوارہ کتے ہیں جو ہمارے بچوں کو بھی کاٹ لیتے ہیں اور ہمارے بڑوں کو بھی کاٹ لیتے ہیں جس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں تو ان کو مارنے کا طریقہ جو ہمارے پاس ہے، ہم کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم ان کو زہر دے دیتے ہیں جس سے وہ مر جاتے ہیں اور جب وہ مرتے ہیں تو ان کی ڈیڈ باڈیزکو ٹھکانے لگانے کےلیے الگ سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس طریقے سے وہ ختم بھی نہیں ہوتے۔
تومحمدارشدنے یہ بتایا کہ ترکی کے اندر انہوں نے ایک تجربہ کیا کہ وہ کتوں کو ایک ایسا ٹیکہ لگاتے تھے جس سے ان کی پیدائش کم ہوتی جاتی تھی یعنی ان کے بچے پیدا نہیں ہوتے تھے اور وہ قدرتی طور پر کم ہوتے جاتے تھے بغیر زہر کی دوائی دینے سےوہ کتوں کو پکڑتے تھے اور ویکسین لگاتے جس سے وہ اس قابل نہیں رہتے تھے کے بچے پیدا کرسکتے۔ اور اس طرح صرف دوسال میں انہوں نے گلیوں میں پھرنے والے کتوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا یہ ایک دلچسپ بات تھی جو میرے علم میں نہیں تھی اور میں نے چاہا کہ آپ لوگوں تک یہ بات پہنچاوں اور اگر آپ لوگوں میں سے کوئی تنظیم یہ کام کرنا چاہے تو یہ کام مل جل کے کر لینا چاہیے اور اس کے لیے ڈاکٹر کوئی نہ کوئی نصیحت کر دیں گے کہ آپ یہ ٹیکے استعمال کر سکتے ہیں بجائے ان کتوں کو مارنے اور پھر سنبھالنے کے اس طریقے پر عمل کر کے ہم دو چار سالوں میں ان کتوں کے نقصان سے بچ سکتے ہیں جو ہمارے ارد گرد گندگی پھیلاتے ہیں. امید کرتا ہوں آپ کو یہ بات دلچسپ لگی ہوگی اگر آپ کو ہماری بات اچھی لگی ہے تو اسکو مزیدپھلائیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمدمشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان