ہم عام طور پریہ بات سنتے ہیں کہ شارٹ کٹ تو اچھی چیز نہیں ہے، مجھے لمبا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ زندگی میں کامیابی کے لیے شارٹ کٹ کوئی مفید طریقہ کار نہیں ہے۔ میں بھی اس بات پہ یقین کرتا ہوں اور آپ بھی اس بات پہ یقین کرتے ہوں گے۔ جس کے لیے جتنا وقت چاہیے اتنا کرنا چاہیے لیکن ایک بات میں اپنے آپ سےاورآپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ میں جس راستے پہ چل رہا ہوں یا جو راستہ اختیار کیا ہے میں جس سپیڈ سے چل رہا ہوں، کیا میں اس کی سپیڈ کو بہتر کرسکتا ہوں؟ ٹھیک ہے اگر مجھے یہاں سے کراچی جانا ہے اور ایک ہی راستہ ہے آپ پیدل جائیں گے تو کئی مہینے لگ سکتے ہیں یا آپ اسی طرح کسی سست رفتار سواری پر جائیں گے تو ہفتے لگ جائیں گے اور اگر آپ ہوائی جہاز میں جائیں گے تو آپ چند گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچ جائیں گے تو یہ شارٹ کٹ نہیں ہو سکتا یہ تو اس راستے پر جانے کے طریقے کو بنیادی طور پر بہتر بنانا ہے یہ شارٹ کٹ نہیں ہے۔
اب یہ ایک اور دنیا میں اس کے ساتھ کام ہے اس کو کہتے ہیں “ایکسپرٹ اوپینین” تجربے یا لوگوں کے تجربے سے سیکھنا ہم بنیادی طور پر انسان ہیں، اس کے اندر اپنی ایک انانیت ہوتی ہے تھوڑی ہو یا زیادہ اور وہ جانوروں میں بھی ہوتی ہے، یہ کہنا کہ کسی میں کوئی انانیت نہیں ہے یہ کہنا ناممکن ہے وہ کم ہوسکتی ہے یا زیادہ ہوسکتی ہے ہر آدمی اپنے اوپر فخر کرتا ہے کہ وہ زیادہ سمجھدار ہے بچہ ماں باپ سے کہے گا کہ اسے زیادہ سمجھ ہے طالبعلم استاد سے کہے گا کہ اسے بہتر سمجھ ہے، یقینی طور پر لوگ دنیا میں ہم سے زیادہ جاننے والے موجود تھے میں نے جو زندگی میں ان سب چیزوں سے سیکھا وہ یہ ہے کہ اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس کام کو نئے سرے سے کریں تو کوشش ایسی کیجیے کہ جس نے اس کام کو کیا ہو اس کے پاس بیٹھ جائیے اس کے تجربات سے شروع کیجیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وہ شارٹ کٹ ہے جس کو لفظ تو شارٹ کٹ کہہ رہا ہوں چھوٹا راستہ لیکن انتہائی موثر اور بہت اہم ہے آج بھی دنیا میں جو کام کرنے والے ہیں آپ یقین کریں کہ وہ سب سے پہلے جا کر دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے اس کو کس انداز سے کیا ہے چاہےوہ جمہوریت ہو، آپ کی معیشت ہو یا معاشرت ہو۔
ہمارے پاس بے شمار لوگ آتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ اچھا آپ کو یہ مسئلہ ہوا تھا تو آپ نے یہ کیسے حل کیا تھا؟ ہم بھی لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں اب اس میں جب ہم پوچھنے جاتے ہیں تو جو رکاوٹوں کی دیوار بنتی ہے انانیت یعنی”ہم” کہ میں کیوں پوچھنے جاؤں جب میں اس مسئلے کا حل پوچھوں گا تو مجھے لگے گا کہ میرا رتبہ کم ہو گیا ہےتو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اس مسئلے کو بہتر کرسکوں میں یقینی طور پر اس کو بہتر کر سکتا ہوں صرف یہ بات سوچ کر کہ مجھے کیا ضروری ہے کہ میں ایک تجربہ خود سے کروں اگر چار لوگوں نے ایک مختلف تجربہ کیا مختلف طریقوں سے فصل اگائی ہے مختلف طریقوں سے ٹیکسٹائل میں کام کیا ہے مختلف طریقوں سے انہوں نے امتحان کی تیاری کی ہے مختلف طریقوں سے انہوں نے سفر کیا ہے اس سفر کے اندر کیا کچھ ہوتا ہے انہوں نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے تو بجائے اس کے کہ میں خود ایک نئے سرے سے کام کروں تو مجھے وہ expert opinion لینا چاہیے اور دنیا میں جب کتاب اتنی عام نہیں تھی الیکٹرانک میڈیا عام نہیں تھا تو لوگ قابل آدمی کے پاس جاتے تھے۔ دنیا جہان کے پاس جاتے تھے اور پوچھتے تھے کہ یہ کام آپ نے کیسے کیا تھا؟ اور جب اس کے بعد کتاب آئی، رسالے آئے ،اخبارات آئے تو لوگوں نے ان سے پوچھنا شروع کردیا۔ جب الیکٹرانک میڈیا آیا تو لوگ الیکٹرانک میڈیا پر آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہے اور اب تو ہم انٹرنیٹ کے ایک ایسے دور کے اندر رہ رہے ہیں جہاں یہ چیزیں ہمارے لیے بہت آسان ہیں اس لیے اس میں شارٹ کٹ نہیں ہے اس میں انانیت کی دیوار کو ایک طرف ہٹا دیں اور پھر آپ اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں اور ان سے یہ پوچھیں کہ یہ مسئلہ تھا آپ نے کیسے حل کیا اور ضروری نہیں کہ آپ اس کو 100 فیصد تسلیم کریں آپ اس میں کوئی ردوبدل بھی کر سکتے ہیں، کرنی بھی چاہیے اسی کو ہم ترقی اور بہتری کہتے ہیں یہ شارٹ کٹ ہے یعنی ہم کوئی بڑا سفر کر کے آیا ہے تو اس کی مختصرسی ا ہم چیزیں اخذ کرتے ہیں ۔
میرے نزدیک یہ مشق بہت اچھی ہےاور میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلےمتعلقہ فیلڈ کے ماہرین سے پوچھوں وہ ہم سے کم پڑھے لکھے ہوں، نہ پڑھے لکھے ہوں اور ان کی کوئی بھی معاشی یا مالی کوئی بھی حیثیت ہو میں اس کو مد نظر نہیں رکھتا میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جو ہماری پنجابی میں بھی کہتے ہیں “کند کولوں وی مشورہ کرلیناں چائییدا” ہمیں مشورہ کرنا چائیے۔ بات ہماری اچھی لگے تو آگے پہنچائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق احمدمانگٹ
تعاون فاونڈیشن پاکستان