امن کاعالمی دن
اقوام متحدہ کے تحت جو دن منائے جاتے ہیں ان میں ایک دن 21 ستمبرامن کا عالمی دن ہے۔ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر آپ جان سکتے ہیں دنیا میں کتنا امن ہے، اور کہاں کہاں امن ہے۔ جب آپ اس بات پہ غور کریں گے تو آپ ایک نتیجے پر پہنچیں گے کہ دنیا میں ہر جگہ امن ہے سوائےمسلم ممالک میں۔ سوائے ان جگہوں پر جہاں پرمسلمان بستے ہیں، چاہے وہ کشمیر ہے، برما ہے،فلسطین ہے یا وہ مڈل ایسٹ،، شام ہے یا عراق ہے۔ ان علاقوں سے کب سے امن غائب ہوا ہے اور کس نے یہ امن چھینا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ۔ جس کا جواب ہم سب جانتے ہیں ۔
میرے دوستوں!
امن سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے ۔ سورۃ القریش کےاندر اللہ رب العزت جب اہل قریش سے مخاطب ہوتا ہے ان پر اپنے دواحسانات گنواتا ہے ایک یہ کہتا ہے کہ تم بھوکے تھےتم کو کھانا دیا اور پھر وہ یہ کہتا ہے کہ تم پر خوف طاری تھا اور میں نے تم کو امن عطا کیا۔
اگر آپ نبی ﷺ کی قیادت میں بھرپا ہونے والے اسلامی انقلاب کو دیکھیں۔ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس انقلاب کے نتیجےمیں ایمان کے بعد جو سب سے اہم ترین چیز عرب کے لوگوں کو ملی وہ امن تھا، اور یہی کہا گیا تھا کہ ایک خاتون ایک شہر سے لے کر دوسرے شہر تک سفر کرے گی اور اس کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔یہ وہی عرب ہے جہاں لوگ قافلوں کی شکل میں سفر کرتے تھے۔ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلے سے محفوظ نہیں تھااور طاقتور کمزور کو دباتا تھا۔
آج دنیا میں پھر وہی مقام ہے ، وہی سلسلہ ہے، جو سپر پاور ہے، وہ یہی سمجھتی ہے کہ دنیا کے اندر اسی کی حکمرانی چلنی چاہئے، اسی کی بات مانے جانی چاہیے۔اُن کو بات منانی چاہیے لیکن امن کے لیے، فساد کے لیے نہیں، جھگڑےکے لیے نہیں ۔ امن ہو تو کم کھانے میں بھی آدمی کا گزارہ ہو جاتا ہے۔اس کو یہ پتہ چلے کہ میرا گھر محفوظ ہے، میرا کاروبار محفوظ ہے،میری عزت محفوظ ہے تو وہ بھوکا رہ کے بھی شاید گزارہ کر لے، یا کم وسائل کے اندر بھی اپنا گزارہ کر لے۔
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہم تین طرح سے کوشش کر سکتے ہیں !
پہلی بات حدیث کی روشنی میں ہمیں جوکہی گئی وہ یہ کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے شر سے اس کا پڑوسی تک محفوظ ہو۔ آئیں ہم سب سے پہلےاپنی ذات سے وعدہ کریں کہ ہم اپنے ارد گرد ایسا ماحول پیدا کریں گے جس میں ہم سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، کسی کے مال و دولت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا،کسی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ جب ہم ایسا کریں گے اور اسے آگے پھیلائیں گے گے تو انشاءاللہ العزیز ہم خود بھی ایک پر امن زندگی گزار سکیں گے۔
دوسرے یہ ہر ملک کی انفرادی طور پر ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا میں امن کے لیے کام کرے، وہ اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ معاملات کو کسی میز پر بیٹھ کرحل کریں۔ اگر ہم علاقائی امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقیناً ہم پوری دنیا میں امن قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔
تیسری ذمہ داری اس عالمی ادارے، یعنی اقوام متحدہ کی ہے جس کے تحت یہ دن منایا جاتا ہے۔اسے چاہیے کہ وہ دنیا میں امن کی ذمہ داری لے۔ان کی امن فوج بھی ہے، دنیا میں کہیں کچھ بھی ہوتا ہے ، یہ وہاں پر جاتے بھی ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔ لیکن آج دنیا میں امن نہیں ہے ۔ آج سب کچھ ہے،پیسہ ہے ،دولت ہے، دنیا بھر کی سہولتیں بھی ہیں، لیکن کمی ہے توامن کی ہے۔امن نہیں ہوگا، تو یہ دولت بھی محفوظ نہیں ہے، عزت بھی محفوظ نہیں ہے، جان و مال بھی محفوظ نہیں ہے۔
آئیں ہم تینوں لیول کے اوپر ایک آگاہی پیدا کریں، شعور پیدا کریں ۔ہم اور آپ مل کر تعاون فاونڈیشن کے تحت اس پیغام کو آگے بڑھائیں۔
ہم بہت پر امید ہیں کہ آگاہی پھیلا کر ہم دنیا میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان