میرے نو جوان دوستو! میں آپ کو ایک حقیقت بتا دینا چاہتا ہوں
کہ آپ جوان ہیں تو جوانی کہ اندر منصوبے بھی بنائیے، کوشش بھی کیجیے، کامیاب بھی ہوں گے، فیل بھی ہوں گے لیکن یہی وہ دور ہے جس کے اندر آپ اپنی زندگی کی کامیابی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
مدت سے ایک شعر سنتے آئے ہیں،
کھیتوں کو دے لو پانی کہ بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو جوانو اٹھتی جوانیاں ہیں
اس شعر کے شاعر تو نا معلوم ہیں لیکن اس شعر میں جو بات کی گئی ہے، میں اس کو آپ کے سامنے واضح کر کے بیان کرنا چاہتا ہوں۔
بات کچھ یوں ہے کہ جب میں نے اس شعر کے حوالے سے مطالعہ کیا کہ کون سے ایسے لوگ ہیں جو دنیاوی نقطہء نظر سے کامیاب نظر آتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ مجھے دس ایسے بچوں کی لسٹ ملی جو دنیا میں نئے خیالات کے ساتھ کاروباری شخصیت بنے ہوئے ہیں اور ان سب بچوں کی عمریں تقریباً 15 سال تک ہیں۔ بچوں کے علاؤہ دوسرے کامیاب لوگ بھی ہیں جن میں فیس بک کے مالک بھی شامل ہیں یا دوسرے لوگ ان سب کی عمریں تقریباً 30 سے 40 ہی ہیں۔
نو جوانوں میں آپ کے سامنے ایک حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں جو کہ بہت سٹڈیز پر مشتمل ہے۔ جو میں نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کی زندگی کو پڑھ کر کی ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ حاصل کر سکتا ہے توزیادہ سے زیادہ چالیس سال تک کی عمر میں کر سکتا ہے۔اگر تعلیم حاصل کرنی ہے ، امیر بننا ہے، ترقی کرنی ہے،یہ سب اس کو تیس سے چالیس سال تک کی عمر میں مل جاتا ہے۔
اگر آپ اس انتظار میں رہے کہ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں تو آپ یاد رکھیں کہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ بڑھاپے میں ورزش بڑی مشکل سے کی جاتی ہے۔ انسان کی جتنی ذہنی جسمانی اور سائیکالوجیکل توانائی ہوتی ہے وہ تیس سال میں ہوتی ہے اس کے بعد نہیں ہوتی۔
40 سال کی عمر کے بعد زوال آجاتاہے اورلوگوں میں زوال آنا شروع ہو تا ہیں تو میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ زندگی کے اس دور میں ہیں تو یہ ڈپریشن کا دور نہیں ہونا چاہئیے ،یہ انزائٹی کا دور نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ جدوجہد کا دور ہونا چاہیئے،
ایک بہت بڑی بات یہ کہ دنیا میں دو اہم چیزیں ہیں زندگی اور موت، کچھ لوگ موت کو شکست دے دیتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی کو شکست دے دیتے ہیں۔موت کو وہ شکست دیتے ہیں جو زندگی رہتے ہیں۔ موت ان کو مار نہیں سکتی۔ وہ اس کو فزیکلی ڈاؤن کر سکتی ہے۔بابا بھلے شاہ لکھتے ہیں
بھلیا اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
کچھ لوگ موت کو شکست دے کر صدیوں زندہ رہتے ہیں اور کچھ ہار جاتے ہیں۔ زندگی کو زندگی کی طرح جی نہیں سکتے اور بس موت کا انتظار کرتے کرتے چل بستے ہیں۔اور ان کے نقش بھی نہیں رہتے۔
اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ جوان ہیں تو کوشش کریں ،کامیاب بھی ہوں گے فیل بھی ہوں گے لیکن اچیو ضرور کر لیں گے۔ صرف اسی عمر میں یہی وہ دور ہے جس میں آپ زندہ رہتے ہوئے موت کو شکست دے سکتے ہیں۔
آئیں مل کر ایسے کام کرتے ہیں جن سے موت کو شکست دی جائے، جو لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے ہوں تاکہ ہم کہہ سکیں کہ ہم زندہ رہے اور موت کو مات دی۔ اگر ہماری بات اچھی لگے تو اسے آگے پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔شکریہ!
ڈاکٹرمحمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاونڈیشن پاکستان