نوجوانوں کا عالمی دن۔۔۔ملکی ترقی اور نوجوان
بارہ اگست دنیا میں نوجوانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔قوموں کی جب بات کی جاتی ہے، تو کچھ قوموں کے بارےمیںیہ کہا جاتا ہے کہ یہ بوڑھی قوم ہے۔ جہاں پر اسی سال اور ان سے زیادہ کی عمر کے بے شمار لوگ ہیں اور ان کیتعدادمیں ہر روز اضافہ بھی ہوتا جاتا ہے۔ اور کچھ قوموں کو کہاجاتا ہے کہ یہ جوان قوم ہے۔ پاکستان اس فہرست میں ہے جسے جوان قوم کہا جاتا ہے۔
پاکستان کی آبادی میں ساٹھ فیصد سے زائد وہ لوگ ہیں جو انتیس سال کی عمر سے کم ہیں۔اور اس ساٹھ فیصد میں سے کوئی تیس فیصد ایسے ہیں، جو پندرہ اور انتیس سال کے درمیان ہیں۔
یہ سب کہنے کا مطلب ہے کہ جو آج لوگ اس سے بھی نیچے ہیں،اور جو پندرہ سال سے نیچے ہیں اس میں بھی اگلےچند سالوں کے اندرجو بہت سارے بچے وہ جوان ہو جائیں گے۔
دنیا بھر کے اندر نوجوان ایک اثاثہ گنے جاتے ہیں۔ وہ صرف ملکی سطح پہ اثاثہ نہیں گنے جاتے۔ بلکہ اگر ہم اسے دیکھیںتو گھر میں بھی جب کوئی بچہ نوجوان ہو جاتا ہے تو گھر کی امیدیں بھی اس پہ آجاتی ہیں، اس کو بھی اثاثہ سمجھتے ہیں،اور اس پہ بھی آس لگاکر بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح سے کسی معاشرے کے اندر جب نوجوانوں کی تعداد بڑھ جائے گی،وہیوہ لوگ ہوں گے ،جو کام کرنے والے ہوں گے،جو آگے بڑھ کر کسی چیز کی اصلاح کریں گے۔ پاکستان کے اندر اننوجوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ہمارے چند مسائل ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان مسائل سے ہم کیسے نمٹ سکتےہیں؟ آج کا ہمارا موضوع بھی اسی بات پر ہے ۔
میرے نزدیک آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے، کہ اس کوکوئی راہ دکھلانے والا نہیں ہے ،وہ بے مقصدیت کاشکار ہے۔ اس کے ساتھ منصوبہ بندی کی کمی جڑی ہوئی ہے، کوئی نہیں بتاتا کہ کہ اس کو کیا کرنا ہے؟ اس کو کہاںجانا ہے ؟دنیا بھر میں اس کےفیصلے تو چار سےپانچ سال کی عمر میں ہو جاتے ہیں ،کہ اس کو پلیئربننا ہے ، ڈاکٹر بنناہے، انجینئربننا ہے، پروفیسر بننا ہے،وکیل بننا ہے یا اس کی ذہنی صلاحیت کے مطابق فیصلے ہو جاتے ہیں اور ہمارےنوجوان بہت دیر تک فیصلے نہیں کر پاتے۔
یہ میرے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آج آگے بڑھ کر ہمارے نوجوانوں کو مقصدیت سکھا دیں ، زندہ رہنے کےلیے زندگی کا مقصد بتا دیں ،کہ زندگی کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ کیا صرف نوکری کی، پنشن لی ، ریٹائر ہوئے اور فوتہوگئے نہیں یہ نہیں ہے؟ زندگی کا مقصد تو اس سے کہیں اوپر ہے ۔وہ اللہ رب العزت کے کنبے کی خدمت ہے، اپنے ملککی خدمت ہے۔دنیامیں کوئی بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک کوشش ہے، اسی کو زندگی کا مقصدکہتے ہیں۔ اگر آپاپنی زندگی میں کوئی مقصدلے آئیں، تو میں آپ کوپورے یقین سے کہتا ہوں آپ کے پاس مایوسی کبھی نہیں آئے گی۔ ابہمیشہ سرکردہ رہیں گے کہ مجھے یہ مقصد حاصل کرنا ہے۔
ہمارےنوجوانوں کا دوسرا مسئلہ یہ ہے ،کہ ہم بہت شارٹ کٹ لگاناچاہتے ہیں، ہنر نہیں ہے لیکن کمانا چاہتے ہیں، مہارتنہیں ہے، آگے بڑھنا چاہتے ہیں، علم نہیں ہے دنیا پہ حکمرانی کرنا چاہتے ہیں ۔
میرےنوجوان دوستوں ،اگر آپ کے پاس تعلیم نہیں،علم نہیں، آگاہی نہیں ، شعور نہیں۔ تو آپ یقین جانیں آج تو شاید کوئیآپ کو ملازم رکھ لے لیکن آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کا دور آج سے بھی بڑھ جائے گا تو شاید آپ کو کوئی ملازم نہرکھے۔ آپ کہیں گے کہ میرے پاس ڈگری ہے،لوگ کہے گے ڈگری آپ کے پاس اس لیے ہے کہ آپ تشریف لائے اور ہمنےآپ کواندر آنے کی اجازت دی ہے اور اپنے سامنے بٹھایا ہے۔اس ڈگری نے آپ کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ تو اس کے بعدآپ کیاکام کرتے ہیں ؟یہ پھر آپ کی ذمہ داری ہے، آپ مسئلے کو کیسےحل کرتے ہیں؟ اس کا تجزیہ کیسے کرتے ہیں؟ڈگری کی اہمیت سےانکار ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہے لیکن ڈگری آپ یوں سمجھے جیسے پاسپورٹ ہے۔ جو آپ کوکسی جگہ پہ داخل ہونے کے لیے مدددیتا ہے۔
تیسرا مسئلہ ہمارا نوجوانوں کا جو ہے، وہ تھوڑی منفی بات ہے۔جس کا ذکرمیں نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میرا خیال یہ ہےکہ اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بہت سارے نوجوان منشیات کےساتھ جڑ چکے ہیں۔ یہ ان کو کہاں سے ملتی ہے ؟کیسے ملتی ہے؟اور کس طریقے سے یہ پروان چڑھ رہی ہے ۔اس میں کوئی ہمارے کالجزنہیں بچے ،کوئی سکول نہیںبچے، یونیورسٹیاں نہیں بچی ہوئیں۔جب بھی کوئی تحقیق سامنے آتی ہے تو وہ رونگٹے کھڑی کر دیتی ہے۔اس میں لڑکےاور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔کچھ امیر اور غریب گھروں سے بھی ہیں۔ تو خدارا منشیات کے قریب بھی نہ جائیں۔اگر آپ کوعلم ہو کہ آپ کے دوستوں میں کوئی منشیات استعمال کرتا ہے تواس سے جتنا دور ہو سکتے ہیں، دور ہوجائیں۔
اور چوتھی بات میرے نوجوان دوستوں، میں آپ کو جو بتانا چاہتا ہوں، وہ یہی ہے کہ اس سب کے باوجود اگر آپ کو اپنیمقصدِ حیات کا نہیں پتا، کہ آپ کے رب نے آپ کو دنیا میں کس مقصد کےلیے بھیجا ہے۔ تو میں پورے یقین سے کہہ سکتاہوں، بے مقصد زندگی کاکوئی فائدہ نہیں ہے آپ دنیاوی مقاصد جتنے بڑے مرضی حاصل کر لیں لیکن در جوانی توبہ کرداشیوائے پیغمبری۔ جوانی تو ایسی چیزہے کہ جس میں اللہ کو بھی نوجوانی کی عبادت پسند ہے، اور نوجوانی کے اندرکیے ہوئے کام انسانوں کوپختہ کر دیتے ہیں۔ وہ اسی پختگی کے ساتھ ان کاموں کے اوپر جوڑا رہتا ہے، اس پر عمل کرتارہتا ہے۔ بس یہی آپ سے کہنا ہے آپ ہمارا اثاثہ ہیں، آپ صرف ملک کا اثاثہ نہیں ، امت مسلمہ کا اثاثہ نہیں ، اس دنیا کااثاثہ نہیں بلکہ آپ اپنے گھرکا بھی اثاثہ ہیں، اپنے قبیلے کا بھی ، اپنے گاؤں اور شہر کا بھی اثاثہ ہیں۔ اور وہ جو کسینے کہا مجھے ٹھیک سے یادتو نہیں ہے۔” وہی جوا ں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا “۔ آپ ہماری آنکھ کے تارے ہیں۔ ہم نےآپ سے بہت امیدیں وابستہ کی ہیں۔
اگر آپ نے جوانی میں محنت مشقت نہ کی تو آپ بڑھاپے میں آرام کی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ بڑھاپے میں محنت مشقت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آپ محنت مشقت کریں گے تو آپ کے والدین ایک آرام کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
آئیں مل کر یہ طے کریں کہ زندگی کا مقصد کیاہے؟ جس میں آپ دنیاوی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ ڈگریوں سےکہیں آگے ہیں، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں، دنیا میں اپنا اور اپنے قبیلے کا، اپنے خاندان کا ،اپنے ملک کا،اپنی امت کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔ تو یقیناً آپ ہماری آنکھوں کے تارا ہوں گےاور ہم آپ کو اپنے سروں پر بٹھائیں گے۔
امید ہے کہ آپ سوچیں گے ضرور کہ مجھے اپنی جوانی کے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سیکھنے اور عمل کرنےکا وقت ہے۔بہت بہت شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹرمحمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان