Afghanistan Series

کابل سیریز: افغانستان کی سرزمین پر پہلا قدم (قسط نمبر 3)

:افغانستان کی سرزمین پر پہلا قدم
دن کا ایک بج چکا تھا، کسٹم حکام کی مدد سے ٹیکسی کا بندوبست ہو گیا تھا۔ اس ٹیکسی کا مالک ایک ایسا شخص تھا جو نوجوان، نڈر، بہادر اور افغان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک ڈرائیور بھی ثابت ہوا۔ اس نوجوان نے بہت مہارت سے مشکل راستوں پر گاڑی کو ڈرائیو کیا، جس سے اس کی قابلیت کی فہرست میں ہوشیاری کا بھی اضافہ ہوگیا، ہم چار لوگ تھے، تین پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئے اور ایک کے حصہ میں اگلی سیٹ آئی، ہم نے ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے یہ طے کیا کہ وقفے وقفے سےسیٹ تبدیل کی جائے گی، اس طرح ہم سب کے لیے آسانی رہے گی۔
طورخم بارڈر سے نکلے تو میں نےسب سے پہلی چیز جو نو ٹ کی وہ ٹریفک کا دائیں طرف چلنا تھایعنی پاکستان سےالٹ۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ افغانوں نے انگریزوں کے ٹریفک اصولوں کو اپنے ہاں نافذ نہیں کیا۔طورخم سے جلال آباد جانے والی سڑک نئی معلوم ہوتی تھی، پتہ چلا کہ یہ سڑک پاکستان نے حال ہی میں تعمیر کی ہے۔
پشاور سے جلال آباد تک فاصلہ 130 کلومیٹر تک کا ہے، راستے میں کوئی مشہور شہر نہیں تھا۔ کہیں کہیں ہریالی تھی لیکن اکثر جگہیں ویران تھیں، خشک اور بنجر پہاڑ کسی صحرائی علاقہ کا منظر پیش کررہے تھے، بیشتر مقامات پر فوجی چوکیاں تھیں جن کے اردگردریت کی بوریاں رکھی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ جلے ہوئے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ موسم میں ا ب بھی تلخی تھی لیکن قدرے کم ۔ ڈرائیور لاپرواہی سے گاڑی دوڑارہا تھااور میں تصور میں ماضی کے آنے والے قافلوں کو دیکھ رہا تھا۔ آریاؤں کا قافلہ پھر صوفی بزرگ اور مصلح سید علی ہجویریؒ کی راہنمائی میں ایک قافلہ آگے بڑھتا ہوا نظر آیا، میرے ان خوبصورت تخیلات کا پردہ ڈرائیور کی آواز سے ہٹ گیا، جب اس نے کہا کہ ہم جلال آباد پہنچ گئے ہیں۔
اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو آپ جان سکیں گے کہ دریائے کابل جلال آباد تک سڑک کے شمال میں چلتا ہے۔دریا فاصلے پر تھا، کہیں کہیں سےنظر آرہا تھا۔ سب سے حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس علاقہ میں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ویران ہو گیا تھا۔ میری خواہش تھی کہ کہیں جانوروں کے ریوڑ ہی نظر آ جائیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
ان راستے پر سب سے زیادہ پائی جانے والی چیز جنگ کی باقیات تھیں۔ آپ کے علم میں ہے کہ جب روس نے 1979 ء میں افغانستان پر حملہ کیا، اس وقت سے اب تک افغانستان حالت جنگ میں ہے۔ اس لیے جنگ میں تباہ وبرباد ہونے والے گھر، گاڑیاں، ٹینک اور اسی طرح کا بے شمار سامان راستے میں بکھرا پڑا تھا، جن کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کبھی یہ سب کچھ لوگوں کے زیر استعمال تھا لیکن کچھ لوگوں کی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی خاطر سب کچھ برباد ہوگیا۔

:جلال آباد: جلال الدین اکبر کے نام پر بسا ہوا ایک تاریخی شہر
جب ہم جلال آباد پہنچے تو دوپہر ڈھل چکی تھی اور گرمی بھی بہت تھی،راستے میں ایک کشادہ بازار آیا ،سڑک کے کنارے بے شمار ہوٹل اورٹھنڈے مشروبات کی دوکانیں تھیں ،اونچی آواز میں گانے لگے ہوئے تھے، یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے طالبان کے دور میں لگائی گئی پابندی کی کسر نکالی جارہی تھی۔ایک ریستوران میں رک کر کھانا کھایا دل میں ایک انجانا سا خوف ،بد امنی اور اجنبی لوگوں کا ڈرتھا۔کئی عمارتوں پر کڑا پہرہ تھا اور بہت سی جگہوں پر افغان فوجی گشت کرتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔کہیں کہیں غیرملکی افواج کے سپاہی بھی نظرآرہے تھے۔جی بھر کر جلال آباد کو دیکھا۔جلال آباد کو روسی تسلط کے وقت حزب اسلامی کے مجاہدین نے سب سے پہلے آزاد کروایا تھا۔

:جلال آباد: ایک مختصر تعارف
جلال آباد کا پرانا نام آدینہ پور تھا۔630 ء میں چینی سیاح اور مذہبی راہنما ژوانگ یہاں پہنچے ،اس وقت یہ شہر گندھارا تہذیب کا مرکز تھا، پھر مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا، خراسانی عرب یہاں پر حکمران رہے بعد ازاں سلطان محمود غزنویؒ نے خراسانی عربوں سے حکومت چھین لی۔گیارویں صدی کے آغازمیں غوری سلطنت نے یہ علاقہ غزنویوں سے چھین لیا،بعد ازاں چنگیز خان نے افغانستا ن پر حملہ کرکےہرات بلخ اور غزنی کو مکمل طور پر تباہ کردیا،پھر سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیر الدین بابرکی وجہ سے اس جگہ کو اہمیت حاصل ہوئی،اس شہر نے ترقی کی منازل جلال الدین اکبر کے دور میں طے کیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے احسانات کی بدولت اس شہر کا نام جلال آباد رکھ دیا گیا۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ جلال الدین نامی بزرگ کے نام پر اس شہر کا نام رکھا گیا۔ مغلوں نے 1738 ء تک یہاں حکومت کی، پھر نادر شاہ نے مغلوں کو شکست دی، بعد ازاں احمدشاہ ابدالی نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ احمدشاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے جلال آباد کو فوجی چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا۔ انگریزوں نے 1838 ء میں اس علاقہ پرحملہ کیا جو ناکام رہا ،دوبارہ حملے کے نتیجے میں وہ کامیاب رہے۔ انگریزوں نے جلال آباد پر قبضہ کیا لیکن بعد ازاں چھوڑ کر چلے گئے۔

تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں اور افغانیوں کی دوسری جنگ میں جب انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی توانھوں نے جلال آباد کے قریب ایک گاؤں گنڈا مت میں اُس علاقے کے سردار یعقوب خان سے ایک معاہدہ کیا۔اس معاہدے کے مطابق یعقوب خان کی سرداری ختم ہوئی اور اس علاقے پر انگریزوں کی حکومت قائم ہوگئی۔اس معاہدہ میں بہت زیادہ توہین آمیز شرائط تھیں لیکن ایک بڑی دلچسپ شرط یہ تھی کہ کابل میں انگریزوں کا نمائندہ کوئی انگریز نہیں ہو گا، بلکہ کوئی ہندوستانی مسلمان ہوگا۔
یہ شرط مجھے کافی دلچسپ معلوم ہوتی ہے، بہرحال جب شکست ہوجائے تو ایسی چھوٹی چھوٹی شرائط سے دل کی تسلی تو ہو ہی جاتی ہے۔
روس کے حملہ کے دوران جلال آباد شہر نے بہت اہم کردار اداکیا۔1992 ء میں افغان مجاہدین نے اس علاقہ پر قبضہ کیا۔اس طرح یہ شہر مختلف ادوار میں مختلف لوگوں کے قبضہ میں رہا۔آج یہ شہرنیٹو اور اقوام متحدہ کی مدد سے دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے اور پاکستان منتقل ہونے والےمتاثرین جنگ رفتہ رفتہ واپس لوٹ رہے ہیں۔ پشتون تہذیب میں جلال آباد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں مقامی افغان فوج کے علاوہ امریکی فوج کے دستے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔
جلال آباد ائیرپورٹ پرقائم امریکی فوجی اڈہ، افغانستان میں سب سے بڑا امریکی اڈہ تصور کیا جاتا ہے۔جلال آباد ننگر ہار صوبہ کا ایک اہم شہر اور اس کا صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔ جلال آباد افغانستان کے پانچ بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی پچاس ہزار کے قریب ہے۔ یاد رہے پاکستان کے ایک اہم سیاسی راہنما خان عبد الغفار خان نے اپنے مرنے کے بعد جلال آباد میں ہی دفن ہونے کی فرمائش کی تھی۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے لیکن جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب میں، فریبِ ناتمام اس میں بات کی تردید کی ہے۔ ان کی قبر جلال آباد میں ہی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی قبر پر نہ جا سکا، اس کی وجہ میری لاعلمی تھی ( جب میں 2022 ء میں افغانستان آیا تو خصوصی طور پر جلال آباد بھی آیا جس کا مقصد صرف عبد الغفار خان کا مقبرہ دیلھنا تھا)۔
جلال آباد میں افغانستان کی ایک اہم یونیورسٹی ہے، جس کا نام ننگرہار یونیورسٹی ہیں۔یہ افغانستان کی دوسری بڑی یونیورسٹی ہے۔ اس میں طالبعلموں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے،1962 ء میں یہاں میڈیکل کالج بنایا گیا تھا۔ میرے اپنے علم کے مطابق اُس وقت پاکستان میں بہت ہی کم میڈیکل کالجز تھے۔ اس وقت ننگرہار میڈیکل کالج افغانستان کا دوسرا بڑا میڈیکل کالج ہے۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر نو میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے بھی جناب سید احسان اللہ وقاص صاحب کی قیادت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
اگر کبھی آپ کو ظاہر شاہ کے دور کی افغانستان کی تصاویر دیکھنے کا موقع ملے تو آپ اندازہ کر سکیں گےکہ اُس وقت افغانستان ایک نہایت ہی ترقی یافتہ ملک تھا ۔شہری زندگی کے لوگوں کی بود و باش یورپ کی طرح تھی۔میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی شادی کے بعد ہنی مون کے لیے کابل گئے تھے۔پاکستان سے یورپ جانے کا زمینی راستہ بھی کابل سے جاتا تھا اور لوگ اپنی گاڑیوں پر یہ سفر طے کرتے تھے۔
خیال آتا ہے کہ وہ کتنا پُرامن دور تھا جب سفر کی سہولتیں محدود تھی لیکن راستے پرامن تھے آج سب کچھ ہونےکے باوجود میرا افغانستان کا سفر ایک خوف کے سائے میں طے ہو رہا تھا۔

جلال آباد دریائے کابل اور دریائے کنہار کے سنگم پر واقع ہے، یہی دریا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ میں جلال آباد کی تاریخ کو ذہن میں لاتے ہوئے اس شہر سے گزررہا تھا، میں بہت خوش تھا کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہورہی تھی اور مجھے ایک اہم شہر سے گزرنے کا موقع مل رہا تھا۔جلال آباد سطح سمندر سے انیس سو فٹ کی بلندی پر واقع ہےاس لیے گرمی دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ میں جتنی دیر اس شہر میں ٹھہرا، مجھ پر ایک خوف کی کیفیت طاری رہی، لیکن میں خوش بھی تھا کہ مجھے ایک اہم تاریخی شہر دیکھنے کا موقع تو ملا۔

 

ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ

تعاون فاؤنڈیشن  پاکستان

:نوٹ

مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔  اسی سلسلے  میں  کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔  ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔  باقی آئندہ قسط  میں 

 

 

Facebook Comments Box

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *