جلال آباد سے کابل:
جلال آباد سے کابل تک کا راستہ دیڑھ سو کلومیٹر کا ہے، سڑک نئی نئی بنی تھی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سڑک چین نے بناکر دی ہے۔ سڑک پر ٹریفک بہت زیادہ تھی، راستے میں کہیں کہیں بستیاں بھی تھیں اورکچھ جگہوں پر جنگلات بھی تھے۔اکثر جگہوں پر بنجر میدا ن بھی نظر آتے تھے۔دریا کے ساتھ ساتھ تقریبا ساٹھ کلومیٹر لمبی سڑک تھی ۔ آبادی بہت کم تھی، سڑک کے کنار ے اور میدانوں میں اکثر جگہوں پر جلے ہوئے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی دکھائی دیتی تھیں۔
چلتے چلتے ہم ایک درّے پر پہنچ گئے، پہاڑ کے اوپر تک چڑھائی، تنگ درّہ، اور ڈرائیور کی نڈر ڈرائیونگ نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ایک خطرناک موڑ پر پہنچ کر تو بس یوں سمجھ لیا تھا کہ اب مشکل سے ہی بخیریت واپس پہنچ سکوں گا، لیکن الحمداللہ بچ بچاؤ ہوگیا۔ پہلی مرتبہ یہ سڑک 1969 ء میں تعمیر کی گئی تھی بہت ہی پرانی اور ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی۔
تنگ غار: ایک مشکل ترین راستہ:
جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے ایک بہت ہی تنگ پہاڑی سلسلہ ہے جس میں ایک سرنگ بھی ہے۔ اسے تنگ غار بھی کہتے ہیں۔ بہت اونچائی سےکابل جانے والی سڑک پہاڑی سلسلے کو عبور کرتی ہے، کہتے ہیں کہ یہ ہزاروں سال پرانا راستہ ہے۔ کوہ ہندوکش کے اس سلسلہ کو عبور کرنا آسان کام نہیں ہے ۔جو بھی افغانستان سے جلال آباد جانا چاہے، اسے یہ سلسلہ ضرور عبور کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر اس علاقہ میں ٹرکوں کا گزر بہت مشکل ہوتا ہے ۔جب ہم اس درّہ پر پہنچے توٹرکوں کی ایک طویل قطار دیکھنے کو ملی۔ لوگ انتظار کر رہے تھے ۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے۔ لیکن ہمارا ٹیکسی ڈرائیور انتظار اور صبر جیسے الفاظ سے آشنا نہیں تھا۔ اس نے حسب معمول گاڑی کو مشکل راستوں سے گزارا اور اِس طرح ہم سب سے آگے نکل آئے۔ ہم اس مشکل راستہ سے نکل تو آئے لیکن آج تک مجھے اس راستے کا خوف نہیں بھولا۔ اُس جگہ پر اتنے زیادہ ایکسیڈنٹ ہوئے ہیں کہ اس سڑک کو دنیا کی سب سے خطرناک سڑک ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
اس راستے سے گزرتے ہوئے میں مسلسل یہ سوچتا رہا کہ وسطی ایشیا اور افغانستان سے بے شمار لوگ لاکھوں کی تعداد میں اسی درّے سے گزرتے ہوئے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔راستہ پیدل چلنے کے لیے بھی بہت مشکل تھا، لیکن جنگی سازوسامان اور جانوروں کے ساتھ اس راستے سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ملکوں کو فتح کرنے کے لیے ایسا حوصلہ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔
پل چرخی جیل:
کابل سے بہت پہلے ہمارے بائیں طرف سڑک سے فاصلے پر ایک بہت بڑی عمارت نظر آرہی تھی۔جیسے ہی ہم اس عمارت کے قریب سے گزرے، توہمارے ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ یہ افغانستان کی سب سے بڑی جیل، پل چرخی جیل ہے۔جب اس نے یہ نام بتایا تو مجھے بہت کچھ یاد آگیا۔ جب بھی افغان جہاد کی بات ہوتی تھی، تو یہی بتایا جاتا جو لوگ گرفتار کیے جاتے ہیں اور ان کو پل چرخی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ اس جیل میں رکھے جانے کا مطلب تھا کہ اب کبھی زندہ واپسی نہ ہوگی، ساتھ ہی اس جیل میں ہونے والے مظالم کے متعلق بھی بہت عجیب وغریب اور خوفناک کہانیاں موجود تھیں۔
میں نے جو نہی اسے دیکھاتو خوف کی ایک لہر محسوس کیا۔ یہ جیل 1970 ء میں داود خان، جو اس وقت افغانستان کی حکمران تھے، کے کہنے پر بنائی گئی تھی۔ روسی افواج کے حملے کے بعد مخالفین کو سزا دینے کے لیے یہ سب سے موضوع جگہ سمجھی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہاں پر ستائیس ہزار سے زائد لوگوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ابھی حال ہی میں امریکی فوجوں نے یہاں پر ایک اجتماعی قبر بھی دریافت کی، جس میں دو ہزار سے زائد لوگوں کی باقیات موجود تھیں۔ جن کو اسّی کی دہائی میں قتل کیا گیا۔
ایسی جگہ اس قابل تو نہیں ہوتی کہ اُس کا ذکر کیا جائے لیکن کیا کیا جائے یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ پل چرخی اب بھی موجود ہے۔ کبھی اسے سردار داود نے استعمال کیاتوکبھی ترکئی نے لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کی، پھر اس کے بعد روسیوں نے بھی یہاں پر اپنے دشمنوں کے ساتھ بد ترین سلوک کیا اور اب اس پر امریکہ کا قبضہ ہے جو پوری دنیا سے اپنے قیدی لا کر یہاں رکھتاہے ۔
Photo Credit: https://www.amazon.com
کہتے ہیں گوانتاناموبے سے بے شمار قیدی یہاں لاکر رکھے گئے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے اللہ ان بے گناہ قیدیوں پر رحم کرے اور ان ظالموں کو قرارواقعی سزا دے۔
اس عمارت کو دیکھ کر سفر کرنے میں جو خوشی محسوس ہو رہی تھی اسے دیکھ کر مدہم پڑ گئی اور پشاور سے جو خوف شروع ہوا تھا اس میں اضافہ ہوگیا۔ یہ جیل بہت بڑے میدان میں ہے اور اس کے چاروں طرف کوئی عمارت نہیں نا ہی کوئی آبادی ۔ اس کی تنہائی یہ بتاتی ہے کہ کس طرح اسے محفوظ بنایا گیا ہے۔
اللہ ہم سب کی مشکلات آسان فرمائے۔(آمین)
بلا آخر شام 5 بجے ہم کابل پہنچ گئے ۔الحمد للہ رب العالمین
کابل: طالبان کے بعد
شام سے ذر ا پہلے ہم کابل میں داخل ہوئے، پہلی مرتبہ کابل کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہم جب کابل میں داخل ہوئے، تو کوئی ایسا منظر نہیں تھا جو بہت ہی مختلف ہوتا۔ وہی سڑکیں، وہی بازار، ویسے ہی پختون بودو باش کے لوگ، سب کچھ ایک جیسا لگ رہا تھا۔ شہر کا مضافاتی علاقہ بہت کھلاکھلا محسوس ہو رہا تھا۔
روٹری کلب افغانستان کے لوگوں نے ہمارے لیے ایک ہوٹل میں رہائش کا انتظام کیا تھا۔اس کا نام اور پتہ ر ؤف روہیلہ صاحب کے پاس تھا، انھوں نے ڈرائیور کو یہ تمام معلومات فراہم کردیں اور وہ ہمیں لے کر اس ہوٹل کی طرف چلا گیا۔مضافاتی علاقے میں غربت کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے۔ لیکن جیسے ہی ہم ایک صاف ستھرے اور پوش علاقے سے گزرنے لگے، تو سب سے پہلا فرق ہمارے ڈرائیور کو پڑا۔ اب اس کی ڈرائیونگ نہایت محتاط تھی اور اب وہ باقاعدہ خوفزدہ لگ رہا تھا اور اچانک خاموش ہو گیا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایااس علاقہ میں بہت سختی ہے کیونکہ اس علاقہ میں بہت سے غیرملکی دفاتر ہیں، ساتھ ساتھ کابل حکومت کے دفاتر بھی واقع ہیں۔
جب ہم اس علاقے سے گزرے تو جو مختلف چیز نظر آئی وہ امریکی اور افغان فوجی تھے۔ ان کی گاڑیاں آ جا رہی تھی، میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جو بظاہر افغانی لگ رہے تھے، کسی چیز کا معائنہ کر رہے تھے اور ان کے اردگرد بیسیوں فوجی بندوقیں تانے کھڑے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ ہماری معمولی غلطی ان فوجیوں کو اس بات کا یقین دلادے گی کہ ہم ان کے دشمن ہیں اوروہ ہم پر فائرنگ کردیں گے۔ہم سب ڈر کے مارے خاموش تھے اور سب سے زیادہ خاموش ہمارا ڈرائیور تھا، وہ جتنا بہادر، کابل سے پہلے تھا، اتنی ہی خاموشی کے ساتھ اب وہ یہ سفر کر رہا تھا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ کابل 1970 ء کی دہائی میں ایک بہت ترقی یافتہ شہر تھا۔ اس وقت یہاں انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل بھی بن چکا تھا ۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کابل شہر کی معاشرتی حالت کیا ہوگی۔ میڈیکل کالجز بن چکے تھے کابل یونیورسٹی نے کام شروع کر دیا تھا۔ کابل ایشیا کا دل بن چکا تھا، لیکن مجھے یقین ہے اُس وقت بھی کابل کے نواح میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ اس سے قطعی مختلف تھا، جو کابل شہر میں ہو رہا تھا۔ اس دور میں روس بھرپور نظریاتی ہتھیاروں سے لیس ہوکر نا صرف افغانستان بلکہ افغانستان سے ملحقہ موجودہ کے پی کے اور بلوچستان کے علاقوں میں بھی پہنچ چکا تھا۔ بہت بڑی تعداد کے اندر لوگ روسی نظریات کے حامی پائے جاتے تھے، روس ان سب کی ہر طرح سےمالی، معاشرتی اور نظریاتی امداد کر رہا تھا۔ کابل کی تمام تر ترقی کا راز روس کی امداد میں پنہاں تھا۔
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان
نوٹ: مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔ اسی سلسلے میں کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔ ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔ باقی آئندہ قسط میں