کیا کامیابی ہماری محنت کا نتیجہ ہے، کیا ایسا ہونا ہماری قسمت میں لکھا ہوا تھا یا اللہ کی مرضی سے سب کچھ ہوا؟
قارئین کرام! میری اور آپ کی زندگی میں کامیابی اور ناکامی اہم اور لازمی جزو ہیں۔ موضوع بحث یہی ہے کہ کیا کامیابی ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے؟ہماری قسمت میں ایسا لکھا تھا سو ہو گیا یا رب کائنات کی منشاء اسی میں تھی تو یہ ممکن ہوا؟ یہ تین مختلف نقطہ نظر ہیں جو زیر غور ہیں۔ ان مختلف زاویوں میں سب سے پہلے میں اس کا ذکر کرنا چاہوں گا جس سے میرا اپنا واسطہ پڑا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پی-ایچ-ڈی کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا تو ایک دن میرے روم میٹ سے میں نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو کامیابی مقدر ہوگی،چونکہ وہ ایک ایتھیسٹ(خدا کا انکاری) تھا تو کہنے لگا کہ اللہ کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہو گا اگر آپ نے محنت کی ہے،پڑھا لکھا ہے اور مضامین شائع کیے ہیں تو آپ ضرور کامیاب ہونگے۔یہ پہلانقطہ نظر ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی خدا کا کوئی وجود نہیں ہے،یہ دنیا ایک سائنس ہے،اگر آپ اس سائنس کو سمجھتے ہیں تو آپ کامیاب ہیں۔
اسی طرح میرا ایک سپروائزر تھا جو یہ تو کہتا تھا کہ کوئی پاور ہے جو اس سسٹم کوچلا رہی ہے مگر وہ ماننے والوں میں سے نہ تھا۔وہ مجھے کہتا تھا کہ کامیابی کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ قسمت کا ہونا بھی ضروری ہے، وہ کسی نہ کسی حد تک قسمت پہ یقین رکھتا تھا۔
تیسرا نقطہ نظر کچھ یوں ہے جو کہ میرا اپنا ایمان بھی ہے کہ رب کائنات نے اس بات کا اختیار اپنے پاس ہی رکھا ہے کہ کون کامیاب اور کون ناکام ہوتا ہے۔ہم کھیت کے اندر ہزاروں دانے بکھیرتے ہیں لیکن ہر دانہ درخت نہیں بنتا اور اگر کوئی درخت بن بھی جائے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے ہاتھ آئے۔ایک لمحے میں سب کچھ آندھی یا بارش کی نذر بھی ہو سکتا ہے اور ہمیں نصیب نہیں بھی ہو سکتا ۔
معزز قارئین محترم! میرا یہ ماننا ہے کہ رب کائنات ہمیں ایمانداری اور لگن کے ساتھ کام کرنے اور محنت کی تلقین کرتا ہے،اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایمانداری،لگن،ذوق اور شوق کے ساتھ اس کام کا حق ادا کرنا چاہئے۔نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں یہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ آپ کو نتائج سے نوازے یا نہ نوازے۔
جب میری اس ایتھیسٹ سے بحث ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ کیسے ممکن ہے کہ آپ محنت کریں اور پھل نہ ملے تو میں نے اسے کہا کہ بالکل ایسا ہو بھی سکتا ہے مثال کہ طور پہ اگر میں ہر طرح سے تیار ہو کہ انٹرویو کے لیے جاتا ہوں لیکن اگر مجھے کسی قسم کا کوئی مسلئہ درپیش آجائے فرض کروکہ صحت کا مسئلہ پیش آجائے اور میں وہاں نہ پہنچ سکوں، اس لیے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے۔
قارئین کرام! رب کائنات نے جو بھی آپ کو وسائل دیے ہیں ان کو زیر استعمال لاتے ہوئے آپ جتنی محنت کر سکتے ہیں،کریں۔نتیجہ خدا کی ذات پر چھوڑ دیں،وہ خوب جانتا ہے کہ ہمارےحق میں کیا بہتر ہے اور کیا ہمارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔اسی طرح میاں محمد بخش نے خوب کہا ہے کہ
مالی دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے یا نہ لاوے
مزید اگر زیر غور لائیں تو اقبال رح صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
لہذا آپ سے یہی التماس ہے کہ قسمت کے گلے سے بہتر ہے کہ آپ اپنی بھرپور کوشش کریں اور بے شک نتیجہ دینے والی ذات خدا تعالیٰ ہی کی ہے۔اگر میں اسے انگریزی میں کہنا چاہوں تو کچھ یوں کہوں گا
I have done up to the level of my best and left the rest for God
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں مکمل ایمان کے ساتھ کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین،شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان