ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ صاحب صنعتِ پارچہ بافی کے ماہرہیں (پی ایچ ڈی جمہوریہ چیک سے کیا) ۔مگر تعجب ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود، وہ سیرو سیاحت کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ طبعاً وہ سیلانی شخصیت ہیں۔
وہ چار بار ہندوستان (بھارت) گئے اور وہاں کے احوال ِ سفر پر 4 ضخیم کتابیں شائع کیں۔ بھارت کے سفرناموں کے سفر کے بعد انھوں نے مزید سفر نامے بھی شائع کیے۔’’پھر چلا مسافر، گلگت،بلتستان جس کا حسن ابھی زندہ ہےـ”۔۔۔’’پھر چلا مسافر: نیپال،جرمنی،روم، ایران،میانمار،قطر”۔’’پھرچلامسافر: سندھ محبت کی سرزمین”۔۔۔’’پھر چلا مسافر: بلوچستان، دریا دل لوگوں کا مسکن”۔۔۔اس طرح ان کے سفرناموں کی آٹھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ابھی وہ وسطی ایشیا کے ملکوں کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کے سفر نامے صرف ذاتی وقوعات و تاثرات ہی کو پیش نہیں کرتے بلکہ قابلِ دید ہر چیز مثلاً: کسی عمارت کا ظاہری سراپا اور اس کی تعمیر کی تاریخ بھی بتاتے ہیں اور یہ کہ کسی نے بنوائی ؟کب بنوائی؟ اگر بہت قدیم ہے( جیسے کوئی مسجد)تو اس کی تعمیر کب ہوئی ؟کتنے اخراجات ہوئے؟ مرمت کون کرواتا ہے؟مسجد کا نظام کون چلاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض ان کے سفر نامے تحقیقی سفر نامے ہیں اور یہ سفر نامے کی بالکل نئی قسم ہے ۔
انہوں نے مختلف علاقوں، حصوں، شہروں قصبوں اور دیہاتوں کا سفر کیا اور جہاں جہاں سے وہ گزرے، وہاں کے لوگوں کے طبائع و عادات اور طور اطوار کا ذکر بھی کر دیا۔
ایبٹ آباد جاتے ہوئے وہ ہری پور میں رکےتو اس شہر کی تاریخ، جس پر جو جو حکمران رہے، ان کا تعارف اور پھر صدر ایوب خان کے حالاتِ زندگی ،پیدائش سے لے کر ان کے صدر بننے تک کے کوائف۔مانگٹ صاحب لکھتے ہیں:’’ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جنرل ایوب کے دور میں بے شمار نئے منصوبے شروع اور مکمل بھی ہوئے جن میں تربیلا اور منگلا ڈیم قابل ذکر ہیں۔
جنرل ایوب کے دور کو پاکستان کی معاشی تاریخ میں سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے لیکن جس طرح انہوں نے ملک میں جمہوری قوتوں کو پامال کیا، ان کایہ جرم اگلی کئی صدیوں تک ناقابلِ معافی رہے گا ۔”کئی جگہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی سفر نامہ نہیں پڑھ رہے بلکہ تاریخ جفرافیے کی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
اپنے ذاتی ذوق ِسیاحت کی تسکین کے ساتھ،گلگت بلتستان کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ اس تصنیف کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ قارئین کو ان علاقوں کی تاریخ ،جغرافیہ،معیشت اور معاشرت سے بھی آگاہ کیا جائےجہاں لوگ صرف قدرتی منا ظر سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد آپ ۔۔۔وہاں کے رہنے والوں کے طرز زندگی کو بھی جان سکیں گے۔اس کتاب سے حاصل کردہ معلومات آپ کے اندر ان لوگوں سے ملنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ان کر علاقوں کی سیر کا شوق بھی پیدا کرے گی۔
ابتدا میں تو وہ اکیلے ہی سفر کرتے رہے ،بعدازاں وہ پیرا ماؤنٹ کلب کے ساتھیوں کے ساتھ سیر وسفر کرنے لگے۔ ان کے دو بیٹے بھی ہمراہ ہوتے تھے۔
مانگٹ صاحب ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار ابتدائی سفرناموں میں کہیں کہیں شعروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہر کتاب ان کی اپنی دوستوں اور اس علاقے کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔ مختصر یہ کہ آپ ان سفرناموں کو پڑھتے ہوئے لطف لیں گے اور آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔
اردو ادب خصوصاً اردو سفر نامے کی تاریخ میں مانگٹ صاحب کے نئے انداز و اسلوب کے سفر ناموں کا تذکرہ ناگزیر ہوگا۔
رفیع الدین ہاشمی
25 اکتوبر 2023