ہماری زندگی میں سوشل پریشرز کیا کیا ہیں اور کس طریقے سے یہ کام کرتے ہیں؟ یہ موجودہ دور کا ایک اہم موضوع ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ کیا ہے اورکس طرح کام کرتا ہے؟
مجھے ایک دفعہ خواتین کے ایک گروپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے ایک سوال پوچھا۔ میں نے خاص طور پر سوال اس لیے پوچھا کہ وہ سوشل پریشر بہت لیتی ہیں۔ میں نےکہا کہ آپ جب کپڑے خریدنے جاتی ہیں تو کیا آپ آزادنہ فیصلے کرتی ہیں؟سب نے کہا ہاں ! ہم بالکل آزادنہ فیصلے کرتی ہیں، ہم اپنی مرضی کی چیزیں لیتی ہیں، جوتا ،رنگ ہر وہ چیز ہم اپنی مرضی کی لیتی ہیں۔
میں نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، میں آپ کی بات سے اتفاق کر لیتا ہوں لیکن مجھے یہ بتائیں جب آپ وہ چیز خرید رہی تھی تو ان دنوں بار بار چلنے والا اشتہار جو آپ نے دیکھا تھا جس میں کسی ماڈل نے اور ماڈل بھی بہت مشہور تھی ، آپ کو پسند بھی ہو تو اس نے وہ پہنےہوں تو آپ اس سےمتاثر ہو کر یہ خریدنے نہیں گئی تھی؟سب نے کہایہ بات تو ہے۔ وہ ماڈل ،نیوز کاسٹراور سیاسی خاتون جس نے یہ پہنا ہوا تھا ہم نے تو یہ سوٹ اسی وجہ سے ہی خریداہے۔
پھر میں نے کچھ والدین سے یہ سوال کیا۔ کیاآپ اپنے بچوں کو اتنی تنگی کی حالت میں اتنے اعلٰی سکول میں کیوں پڑھاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یقینی طور پر ہمارے لیے بہت مشکل کام ہے۔ہمارا کلچر اس سکول سے نہیں ملتا، ہمارا بجٹ سکول سے نہیں ملتا، ہم جو بچے کو بنانا چاہتے ہیں وہ سکول میں بچہ بنتا نہیں ہے لیکن کیا کریں؟ سارے خاندان کے بچے وہاں پڑھتے ہیں، ہمارے محلے کے سارے بچے وہاں پڑھتے ہیں، جس دفتر میں میں جاتا ہوں اس دفتر کے سب لوگوں کے بچے وہاں پڑھتےہیں تو میں مجبور ہوں کیونکہ مجھے ان کے ساتھ رہنا ہے۔ اس کودنیا سوشل پریشر کے نام سے جانتی ہے۔
اس سوشل پریشر نے شایدآج ہی نہیں ہزاروں سال سے اپنا اثر قائم رکھا ہے اور آج بھی ہے۔ بہت سارے لوگ گاڑی صرف اس لیے خریدتے ہیں کہ اردگرد لوگوں کے پاس گاڑی ہوتی ہےاور بہت سارے کوئی خاص کام اس لیے کرتے ہیں کہ بہت سارے دوسرے لوگ کر رہے ہوتےہیں۔ کیا ہم اس سوشل پریشر سے آزاد ہو سکتے ہیں؟
میرا یہ خیال ہے ، شاید یہ بات آپ کوبہت ہی عجیب لگے کہ آج ہم کسی اور کے غلام نہیں بلکہ ہم اپنے اس سوشل پریشر کے غلام ہیں۔ شاید پہلے یہ کام نہیں ہوتا تھا۔ میرے خیال میں پچاس ساٹھ سال پہلے ہم پڑھتےتھے، لوگ آزاد زندگی گزارتے تھے، اپنی جیب کے مطابق، اپنے خیالات کے مطابق زندگی گزارتے تھے، اب ایسا نہیں ہو رہا۔
یہ میڈیا بہت بڑا سوشل پریشر ہم پر ڈالتا ہے۔ جب ہم فیس بک پر یہ دیکھتےہیں کہ فلاں آدمی ایک بہت ٹھنڈے مقام پہ چھٹیاں گزارنے گیا ہواہے تو وہ سوشل پریشر ہم پہ آتا ہے ،ہمارے بچوں پہ آتا ہےاور ہم اس پریشر کو لیتے ہیں اوربچ نہیں پاتے۔ اب اس غلامی اور آزادی کے درمیان میں فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ میں آزاد ہونا بھی چاہوں، اپنی آزاد رائے رکھنا بھی چاہوں تو میں نہیں رکھ پاتا۔
میری والدہ محترمہ ایک فقرہ ہمیں کہا کرتی تھی کہ “کھاؤ من پاندا پہنو جگ پاندا” یعنی کھاؤ وہ جو آپ کا دل کرتا ہےلیکن پہنو وہ جو جگ پہنتاہے۔ یہ پرانا مقولہ ہوگا تواس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پہلے سے بھی ہے کوئی نئی چیزنہیں ہے ہمیں وہی کرنا ہے۔ وہ آپ نے انگلش میں بھی سنا ہوگا کہ روم میں ویسا ہی کرو جیسے رومی کرتے ہیں۔ مطلب یہ صدیوں سے چلتا آ رہا ہے لیکن یہ پہلے اتنا زیادہ نہیں تھا لوگ اپنی زندگی گزار لیتے تھے وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ دوسرے کا منہ لال ہے تو اپنا منہ تھپڑ مار کر لال نہیں کرتے تھے ،یہ بھی پرانامحاورہ ہے۔
کہنے کو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن آج یہ چیزبہت بڑھ چڑھ کر میرے اور آپ کے اوپر آن کھڑی ہوئی ہے ، اس نے ہمیں اپنا غلام بنا لیا ہے اور ہم اس کے ماتحت ہو گئے ہیں۔ اس ماتحت ہونے سے ہمیں جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے کہ ہم اپنی حد سےباہر رہنا کی کوشش کرتے ہیں۔جب ہم اپنی حد سے باہر نکلتے ہیں تو خودبخود کیا ہوتا ہے کہ ہم پریشانی میں آتے ہیں اور وہ پریشانی آپ کو کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری ہی نہیں بلکہ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا کر دیتی ہے۔
یہ پریشر جو کبھی ختم ہوگانہ ہی یہ کبھی زیرو ہوگا، لیکن آپ اس کو کتنا لیتے ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے۔ اس لیے کوشش یہ کریں کہ آپ اپنے اندرونی طور پر، نفساتی طور پر، اتنے طاقتور ہوں کہ آپ اپنی مرضی کا کام کریں تاکہ اس سوشل پریشر میں آ کر آپ کسی نفسیاتی اور جسمانی بیماری میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
آخر میں ایک چھوٹاسا لطیفہ یا شاید واقعہ ہے، اسے آپ ایک واقعہ ہی سمجھیں تو زیادہ بہترہو گا۔
میں نے کہیں پڑھا تو ایک خاتون نےاپنے میاں کو کہا کہ گھر بدلنے میں پندرہ ہزار روپے خرچ آئیں گے اور نئی ساڑھی لینے میں دس ہزارروپے تو اس نے کہا بی بی یہ آپ کیا بات کر رہی ہیں؟ اس نے کہا ہمسائی نے نئی ساڑھی لی ہے مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی یا دس ہزار روپے کی نئی ساڑھی لے دیں یا یہ گھر بدلیں۔ میں اس طرح سے نہیں رہ سکتی اور یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے اسی طرح کےبے شمار واقعات ہیں جن سے مجھے اور آپ کو واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
بچے بھی ایسے ہی کرتے ہیں، سکول جاتے وقت کہتے ہیں کہ ہم کھائیں گے جو باقی بچے کھاتے ہیں۔ صرف یہ خواتین کا مسئلہ نہیں ہے، ہم سب کا یہی مسئلہ ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔
میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ اپنی زندگیوں کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اور یقیناً کرنا چاہتے ہیں۔ تو اپنے معاملات خود طے کریں ، اپنی حیثیت کے مطابق چیزوں کو دیکھیں، اس طرح سے آپ سوشل پریشر سے بچ سکتے ہیں اور اس سے بچنےکے بعد آپ نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان