بہت سارے میرے دوست اور آپ کے بھی جاننے والے ہوں گے جنہوں نے کام کی ایک لمبی لسٹ تیار کر رکھی ہوتی ہے اور جب بھی آپ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یار میں نے یہ بھی کام کرنا ہے، میں نے وہ بھی کام کرنا ہے۔ اس ساری چیزوں کے اوپر نفسیات کے اندر ایک تھیوری بھی ہے اس کو Unfinished Agenda کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
مجھے اس کے موجد کا نام یاد نہیں لیکن یہ تھیوری میں نے Therapy Works میں کورس کرتے ہوئے پڑھی تھی ۔ میں نے اس کا نام ادھورے کام رکھ لیا ہے۔
میں خود آپ کو اپنے تجربے کی بنیاد پر بات کر سکتا ہوں کہ اگر آپ نے صبح سوچا کہ میں نے ایک شخص کو کال کرنی ہےاور سارا دن آپ نے کال نہیں کی۔تو رزلٹ یہ ہوگا کہ وہ کام آپ کے دماغ کے کچھ حصہ کے اوپر بیٹھ جائے گا۔ پھر آپ نے دوسرا کام کیا، ایمرجنسی آگئی تو آپ نے تیسرا کام شروع کر دیا ،لیکن جو پہلا کام تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا، پھر تیسرا آگیا، حتیٰ کہ وہ سارے کام آپ کے دماغ کہ اندر اکھٹے ہو جائیں گے۔
اس تھیوری کےمطابق آپ کے ہاتھ میں گیند ہوتے ہیں، وہ نیچے سے اوپر آتے ہیں،جب تک وہ نیچے لیٹ نہ جائیں اس وقت تک وہ واپس آتے رہتےہیں۔ ہوتا کیا ہے؟ آپ کوئی کام کرتے ہیں اور آپ نے سوچا کہ میں نے یہ ایک خط لکھناہے، اتنی دیر میں آپ کو ایک ایمرجنسی کال آتی ہے اور ایمرجنسی میں چلے جاتے ہیں۔ یعنی ہوا کیا ہے آپ کے ہاتھ میں ایک کام تھا خط لکھنے کا، ایک اور ایمرجنسی آگئی تو آپ نے اس کو نیچے پھینک دیااور اس ایمرجنسی کو ڈیل کرنا شروع کردیا،اب وہ نیچے سے بونس کرتا رہے گا،اور اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک آپ اسے ختم نہیں کرتے۔
ادھورے کام انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔ میں یہ بات بڑی ذمہ داری سے کہہ رہاہوں،اور میں بہت بڑی statement دے رہا ہوں، عموماً میں statement نہیں دیتا،تو یہ statement دینے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ نے کاموں کو ادھورا چھوڑا تو شام تک وہ بہت سی کھڑکیاں آپ کے دماغ میں کھلی رہیں گی اور ایک بھی بند نہیں ہوگی ۔
علاج کیا ہے؟
علاج یہ ہے کہ جس کام کو بھی پکڑیں اس کو ایک دفعہ کنارے تک پہنچادے۔ مثال کہ طور پر میں نے خط لکھنا ہے ،میں نے فون کرنا ہے،میں نے کسی سے ملاقات کے لیے جانا ہے،یہ پانچ ،چھ،سات کام میرے ذمے ہیں۔اچھا آج نہیں کل کروں گا،اگلے گھنٹے کر لوں گا،دو گھنٹے بعد کر لوں گا۔ وہ میرے دماغ کے اوپر بوجھ بنا رہتا ہےاور وہ اترتا نہیں ہے۔میرے ساتھ بھی خود یہ ہوتا ہے۔آج کی تاریخ میں مجھے ایک صاحب سے ملنے جانا ہے،اچھا کل جاتا ہوں،شام کو جاتا ہوں،پرسوں جاتا ہوں،اور پھر دیر کر دیتا ہوں منیر نیازی کے مطابق میں ہر بار دیر کر دیتا ہوں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ خدا نخواستہ وہ کام نہ ہوسکا۔اس سے آپ کسی پریشانی میںمبھی مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ آپ نے ٹکٹ لینی تھا آپ نےکہیں جانا تھا ، جانا بھی ضروری تھا، نہیں جاسکے ۔۔۔ مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔
میرے دوستوں!
اگر آپ نفسیاتی طور پر صحت مند رہنا چاہتے ہیں۔تو ادھورے کام اپنے دماغ میں اکھٹے نہ کریں،اپنے ذہن میں اکھٹے نہ کریں،اپنی میز پر اکھٹےنہ کریں۔آپ نے دس کام کرنے ہیں آپ کی میز پر دس کاغذ بکھرے پڑے ہیں۔آپ یقین کریں کہ اگر آپ پانچ منٹ بھی دیکھتے ہیں تو پانچوں منٹ میں آپکے ساتھ اوہ میرے اللہ یہ بھی کرنا،وہ بھی کرنا اور وہ ختم نہیں ہو نگے ۔
جیسے ایک گیند نیچے گرےگی پھر اوپر آئے گی،اور پھر آئے گی ایمرجنسی آپ ڈیل کرتے رہیں گےاور پھر وہ گیند اوپر آجائے گا۔اس تھیوری کے مطابق اورمیری ذاتی سوچ کے مطابق بھی اگر آپ صحت مند نفسیاتی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور کسی طرح کی پریشانی ذہن میں نہیں رکھنا چاہتے تو ادھورے کام نہ چھوڑیں ،جس کام کو بھی پکڑیں ۔اس کومکمل کریں آپ یقین کرےجب ایک کام کو مکمل کر کے یوں رکھ دیں گے،باقی آپ کا کام آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔
بالکل اسی طرح سے فائلوں کاڈھیر لگاہوا ہے اورآ پ نےایک فائل اٹھا کر اِدھر رکھ دی اس سے آپ کے دماغ کا بوجھ کم ہو جائیگا ۔ ورنہ یہ پندرہ کام نفسیاتی طور پر آپ کے دماغ میں بوجھ کی شکل میں رہے گےاور یہ کبھی نہ ختم ہونے والاسلسلہ ہےآپ کو نقصان پہنچاسکتاہے۔
آئیں طے کریں جو بھی کام کرنا ہے، اس کو ادھورا نہیں چھوڑنا،اور اس کو مکمل کرنا ہے۔ Unfinished Agenda نہیں ہونا چاہیے،تاکہ ہمیں کسی طرح کی کوئی دقت یا پریشانی نہ ہواور کسی نفسیاتی بوجھ کا ہم شکار نہ ہوجائے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹرمحمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان