دو لفظ آپ نے بھی بہت دفعہ سنے ہیں اور میں نے بھی وہ ہیں حسب و نسب یا کسب۔
میں نےآج تک نوکری کے لئے جتنی بھی درخواستیں دیکھی ہیں اس میں کسی جگہ کے اوپر بھی نسب کے متعلق نہیں پوچھا گیا یعنی آپ کی قوم کیا ہے، قبیلہ کو نسا ہے ۔زیادہ سے زیادہ نام اور ولدیت پوچھی جاتی ہے ۔یورپ اور امریکہ میں تو ولدیت بھی نہیں پوچھتے ۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کون ہیں، کس علاقے سے ہیں، آپ کا رنگ کالا ہے، پیلا ہے، آپ کاقدکیا ہے ،شکل کیا ہے، آپ کےوالد صاحب کیا کرتے ہیں، دادا کیاکرتے ہیں، پدرم سلطان،پدرم بادشاہ بھی کوئی کسی نے نہیں پوچھا، کیوں نہیں پوچھا؟کبھی آپ نے غور کیا کہ گاؤں میں تو ان چیزوں کے بے حد اہمیت ہے ۔ ہمارا تعلق ہے اتنے بڑے خاندان سے ،ملک ہیں ،چوہدری ہیں, امیر ہیں,خواجہ ہیں۔
لیکن کام کرنے وقت، ملازمت کی درخواست دیتے وقت ہمیں تو یہ کوئی پوچھتا نہیں ہے ان چیزوں کی تو اہمیت ہی نہیں ہے۔ اہمیت کیسے ہو سکتی ہے؟
میرے پیارےدوستوں خواتین وحضرات آپ نے کیا کبھی آپ نے کسی ڈاکٹر سے دوائی لینے سے پہلے اسکا نسب پوچھا ہے، کبھی نہیں پوچھا، آرکیٹیکٹ رکھتے ہوئے آپ نے اس کانسب پوچھا ہے ،کبھی نہیں پوچھا، کسی دکان پر جائیں اور اچھی دکان پر جائیں تو آپ پوچھتے ہیں کہ نہیں یہ فلاں کی دکان ہو گی تو سودا لوں گا، یہ کبھی نہیں پوچھا۔ یہ نسب کی جو بات تھی وہ تو چودہ سو سال پہلے کہہ دی گئی تھی۔ ہمارے قرآن میں بار بار اس کا ذکر آیا کہ اللہ کے نزدیک جو ہے وہ تو تقویٰ ہے۔تقویٰ مجموعہ ہے آپ کی دیانت کا،آپ کی شرافت کا ،ربِ کائنات سےڈرنے کا،نبی پاکﷺ کی باتوں پر عمل کرنے کا، اللہ کے کنبے کاخیال کرنے کا ۔انہی چیزوں کا نام تو تقوی ہے کہ آپ اللہ سے کتناڈرتے ہیں۔ وہاں بھی بےشمار لوگ موجود تھے جس کے نسب بڑے عالی ، لیکن جس نے کعبے کی چھت پرکھڑے ہو کر آذان دی تھی تو نسب کے لحاظ سےتو بہت دور کی بات تھی، وہ تو ان کے قبیلے کا بھی نہیں تھا۔، اس کے سامنے تو سردارانِ قریش بیٹھےتھے۔
اور ابھی یہ حال ہی کے اندر امریکہ کا ایک صدر دودفعہ صدارت کر کے گیا ہے، کیا تھا اس کا نسب آپ اسے بلیک مین کہہ سکتے ہیں اوروہ ایک افریقی آدمی تھا اس کا والدافریقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابھی جس کو صدر ٹرمپ کے ساتھ نائب صدر رکھا گیاہے وہ ایک خاتون ہے جس کے والدین کا تعلق ساؤتھ انڈیا اور افریقہ سے ہے۔ وہاں اب انہوں نے اس کا نسب نہیں دیکھا اور انہوں نے یہ نہیں دیکھا یہ کون ہے کس قبیلے سے ہے۔ انہوں نے یہ دیکھا اگر یہ قابل ہے اور ہمارے ملک کی اچھی خدمت کر سکتی ہے تو اس کا کسب دیکھاہے نسب نہیں ۔
ہمارے ہاں اس مقام تک پہنچنے کافی وقت لگے گا کہ ہم لوگوں کے کسب پہ بات کریں نہ کہ نسب پہ۔ ہاں ہم نےاتنا تو کرنا شروع کر دیا ہے کہ پرائیویٹ نوکریوں کے اندر ہم صرف کسب دیکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرکاری معاملات کےاندر خاص طور پر ہم اپنے سیاسی قائدین کے انتخاب کے وقت لازماًاور لازماًکسب کی بجائے نسب پر بات کرتے ہیں، ان کے حسب پہ بات کرتے ہیں ان کے قبیلے پہ بات کرتے ہیں۔کیا یہ ضروری ہے؟
ایک دفعہ میرا ایک دوست تھا اُردن سےاس کا تعلق تھا میرے ساتھ ٹیکسٹائل کالج میں پڑھتا تھا ۔ اس وقت شاہ حسین ان کا صدرتھا اور ملک کا بادشاہ تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بن گیا تو میں نے اس سےاس بات پر بحث کی میں نے کہا یار آپ کے وہاں یہ بادشاہت ابھی تک ہے تو بادشاہ کے بعد بادشاہ کا بیٹا ہی ملک کا بادشاہ بن سکتا ہے، تو اس نے کہا کیوں کہ وہ بہت لائق فائق ہے اور یہ ہے،وہ ہے اور فلاں ہے۔میں نے کہا وہ لائق فائق نہیں اس کی ایک ہی قابلیت تھی کہ اس کاوالد بادشاہ تھا۔ اب بھی جہاں بھی بادشاہت ہے وہی پر سارا کچھ یہی اسی طرح ہے۔
اس لیے میرے دوستوں اور بھائیوں جب بھی ہم سلیکشن کرتے ہیں تو کسب کی بنیادپر کرتے ہیں۔ اس کو کیا کام آتاہے اس کی صلاحیت کیا ہے ،نسب کی بنیاد پر نہیں کرتے، اس لیے آپ کانسب کوئی آپ سے چھین نہیں سکتا۔ آپ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ خاندان تعارف کے لیے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں یہ فرماتا ہے،وہ صرف آپ کا تعارف ہے نہ کہ آپ کی کسی قابلیت کی نشانی ۔ آپ کی یہ قابلیت نہیں ہے کہ آپ فلاں قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نسب کی کسی بھی طریقے سے نفی نہیں کر رہا۔ قبیلے اپنےمخصوص خصائص کی بنیاد پر پہنچانے جاتے ہیں ۔ لیکن اچھے برےہونے کا تصور قبیلے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
پنجابی اچھا بھی ہو سکتا ہے، برا بھی ہو سکتا ہے،لیکن اس کی کچھ عادات ہیں۔ اورکے پی کے کا آدمی ،سندھ کا آدمی, انگریز,بلوچ, کوئی بھی ہو ، وہ مخصوص عادات کا مالک تو ہو سکتا ہے۔ ان کی شکل و صورت میں فرق ہو سکتا ہے لیکن کسب کا تعلق نسب سے نہیں ہے۔
آئیں کوشش کریں کہ اپنےکسب کو بڑھائیں، اپنے کام کوبڑھائیں، ہم کتنے مفید ہیں اتنی ہی ہماری قدرہے۔
بڑا سادہ سافارمولا ہے، بیس لائن ہے جو میں نے سیکھی ہے جو سمجھی ہے وہ یہ ہے کہ آپکی قدر اتنی ہے جتنا آپ لوگوں کے لیےمفید ہو سکتے ہیں۔اس کو پلے باندھ لیں، انشااللہ اللہ کے فضل سے آپ کامیاب ہوں گے۔۔۔ روزِ آخرت بھی کسب ہی کی بات ہو گی۔ نسب پر فیصلے نہیں ہوں گیں۔ نسب کا فیصلہ تو اس نے کیا تھا۔ اس پر میرا اور آپ کا تو اختیا ر ہیں تھا۔ جس کا ہمیں اختیار نہیں تھا، اس بارے میں ہم جواد دہ نہیں ہو سکتے۔ جس جواب کسب کا دینا ہے تو کسب پر ہی توجہ دینی چاہیے۔
کسی وکیل کو ہم دس ہزار بھی دینے کو تیارنہیں ہوتے۔ کبھی وکیل کی تو تھوڑی فیس بھی بھاری لگتی ہے۔ لیکن کسی وکیل کو ہم لاکھوں بھی دے دیتے ہیں۔ کئی ڈاکٹر ایسے ہیں جن کو ہم دس ،دس ہزار فیس بھی اور مہینوں انتظار بھی کرتے ہیں ۔دنیا میں قدر کا پیمانہ ایک ہی ہے، جو میرے پاس ہے جو آپ کے پاس ہے کہ یہ شخص میرے لیے کتنامفید ہے۔ جتنا وہ میرے لیے مفید ہو گا اتنی ہی میری نظر میں اسکی قدر ہو گی۔ اگر آپ چاہتے کہ دنیا آپ کی قدر کریں تو یہ سوچیں کہ آپ کتنے مفید ہیں۔
آخر میں ایک مثال دے کر اپنی بات کو مزید واضح کروں گا، کسی زمانے میں شارٹ ہینڈلکھنے والے بہت لوگ ہوتے تھے۔ ان کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ دفتر میں سب سے قریب مالک کے ،چیئرمین کے ،ایم ڈی کے وہی ہوتے تھے۔ ہر وقت ان کے دفتر میں بیٹھے رہتے شارٹ ہینڈ کرتے تھے۔ پھر وہ ٹائپ کرتےتھے ،خط لےجاتے تھے اور دفتر کے سب لوگ ان سے جلتے تھے۔آج ان کی قدر نہیں ہے اس لیے کہ شارٹ ہینڈ کا دور گزر گیا۔ اب آپ موبائل پکڑے ٹک ٹک کر بولیں وہ لکھتاجائے گا۔اب کمپیوٹر آگیا ہے تو کوئی ضرورت نہیں ہے، اُس وقت جس کی ضرورت تھی آج اس کی ضرورت نہیں ہے۔
آئیں ایساکسب کمائیں جو آج کے لوگوں کی ضرورت پوری کرتا ہو اور جتنی ہم ان کی ضرورت پوری کریں گے اتناہی آپ کی قدر اور منزلت میں اضافہ ہوگا۔
ہمارے اس پیغام کو آگے پہنچا کر ایک عظیم مقصد کے حصول میں اپنا فرض ادا کریں ۔۔۔جو ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔۔۔
ڈاکٹر محمدشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان