مولانا رومی کو کون نہیں جانتا؟ شاعرمشرق بھی انھیں اپنا روحانی استاد سمجھتے تھے، وہ بے شمار لوگوں کے روحانی استادبھی ہیں۔ میں نے جب بھی انہیں پڑھا، تو یقین جانیں کہ ایسے لگا جیسےکوئی دل کے تار چھیڑ رہا ہے۔ ان کا ایک زریں قول میں نے پڑھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ
دل سے نکلی ہوئی بات ہی آسمان تک جاتی ہے۔
اس سے میں یہ بات بھی اخذ کر سکتا ہوں کہ جو بات یا فریاد، دعا یا آہ آسمان تک جا سکتی ہے وہ سامنے بیٹھے انسان کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور دوسروں کے دل تک بھی جاسکتی ہے، وہ ہر خاص و عام تک بھی جا سکتی ہے۔
یہ دل سے نکلنے والی بات کون سی بات ہوتی ہے؟ بات تو ہم زبان سے کرتے ہیں، دماغ سے سوچتے ہیں، دل سے بات نکلنا کہاں سے آگیا؟ جب میں نے اس پر غور کیا اور پھر بہت سارے اور لوگوں کو پڑھا، کچھ دین کے اندر ایسی باتیں دیکھیں اور کئی لوگوں کے اس موضوع پر لکھے مضمون دیکھنے کو ملے، تو میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ جو بات دل سے نکلتی ہے، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایسی بات یہ ظاہر کرتی دل، دماغ، سوچ، زبان اور عمل میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں لی جاسکتی ہے جیسے آپ نے کہا مجھے آپ سے محبت ہے یا آپ نے اپنے والدین سے، بیوی بچوں سے اور اپنے دوستوں سے کہا کہ مجھے آپ سب سے محبت ہے، اب زبان بھی وہی کچھ کہہ رہی ہے جو دل کہہ رہا ہے، دماغ وہی کچھ سوچ رہا ہے، جو دل میں ہے ، عمل بھی وہی ہے جو آپ کے دل ودماغ اور آپ کی زبان پہ ہے۔جب یہ چاروں چیزیں ایک ہی سمت میں چلتی ہیں تو پھر وہ آسمان تک پہنچ جاتی ہیں لیکن آپ کا دل کہہ رہا ہو بندہ تو بڑا برا ہے اور زبان سے کہیں مجھے آپ سے بڑی محبت ہے۔ ذہن کے اندر یہ خیال آیا کہ یار اس سے تعلقات بنا کررکھنے چاہیے۔ کل کو یہ کام آئے گا اور آپ کا عمل یہ کہے کہ یہ کس کا فون آ گیا اور فون سنتے وقت کیا حال ہیں؟ بالکل ٹھیک ہیں۔ ایسی صورت میں ایک تضاد سامنے آتا ہے۔
جب آپ کےدل و دماغ، زبان اور آپ کے عمل میں تضاد ہوگا تو وہ بات دور تک نہیں جائے گی۔ اس کو آج بھی آزمالیں کل بھی آزمالیں۔
بات دور تک وہی جائے گی جب آپ کا دل بھی اسی طرف ہوگا، جب آپ کی زبان بھی وہی بات کہے گی، جب آپ کا دماغ بھی وہی سوچے گا اور آپ کا عمل بھی اسی کے مطابق ہوگا۔۔
میں نےایک جگہ پہ ایک ماہر نفسیات کی ایک عبارت پڑھی ۔انہوں نے کہاکہ اگر آپ نے یہ دیکھنا ہو کہ دو لوگ بیٹھے ہیں تو ان کے درمیان میں کتنی محبت ہے؟ یا وہ کتنےاخلاص کے ساتھ تشریف فرما ہیں؟ آپ یہ جان سکتے ہیں۔ اسکے لیے آپ کو انھیں غور سے دیکھنا ہوگا۔ اگر وہ دونوں بیٹھے اکٹھے ہیں مگر دونوں مختلف سمتوں میں دیکھ رہے ہیں، تو یقین جانیں وہ وہاں پر مجبوراً بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر وہ دونوں ایک ہی طرف دیکھ رہے ہیں تو آپ کو یہ یقین کر لینا چاہیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہیں۔
کیا ہم ہر بات دل سے کرتے ہیں؟ مولانا رومی نے تو یہ کہا ہے جو بات دل سے نکلے گی وہی آسمان تک جائےگی۔ جو آسمان تک جائے گی وہ آپ کے دل و دماغ تک بھی جائے گی۔ اگر کوئی استاد اپنے بچوں کو پورے دل سے پڑھا رہا ہے تو وہ بچوں کو بھی سمجھ آئے گی، کوئی شخص اپنی بیوی بچوں سے محبت کا اظہار کر رہا ہے، تو کوئی بھی اس میں شک نہیں کرے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان چاروں چیزوں کے درمیان میں کوئی تضاد نہ ہو۔ دماغ کچھ اور سوچتا ہے، دل کچھ اور، زبان کوئی اور بات کہتی ہے اور عمل کسی تیسری طرف جا رہا ہے، تو پھر ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپکی بات آسمان تک تو کجا سامنے بیٹھے شخص کے دل تک بھی نہیں جاسکے گی۔
آئیں جو بھی کام آپ کر رہے ہیں اگر نوکری کرتے ہیں، کوئی کاروبار کرتے ہیں ، لین دین کرتے ہیں، تعلقات بناتے ہیں یا کسی این جی او میں کام کرتے ہیں تو دل سے کریں۔ اس کا دوسرا مطلب اخلاص بھی ہے۔ خلوص سے کام کریں، محبت سے کام کریں لیکن جو مولانا رومی نےبات کی ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو عظیم درجہ عطافرمائے کہ جو دل سے بات نکلتی ہے وہی آسمان تک جاتی ہےاور علامہ اقبال نے بھی یہ بات بھی کچھ اس نداز سے کہی ہے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔
آئیں زندگی میں جو بھی کام کریں اس کو دل سے کریں، دل سے کرنے کے لیےضروری ہے کہ آپ کی سوچ ،آپ کا عمل ،آپ کی زبان اور آپ کا دل ایک ہی بات کہہ رہا ہو ۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان