سمگلنگ اور انسانی سمگلنگ کا نام تو ہم سب نے سنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے اور بھیانک المیہ بھی۔ جس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے اور میں نے بہت دفعہ دیکھا اور سنا ہے کہ سمندر میں ایک لانچ الٹ گئی، کئی لوگ ڈوب گئے ۔بلوچستان کے صحرا سے دس لاشیں ملیں، ایران اور ترکی کی پولیس نے اتنے لوگوں کو پکڑ لیا یہ کون لوگ تھے؟ یہ پاکستانی لوگ تھے جو غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر جارہے تھے اور کون لے کر جا رہا تھا؟ وہ لوگ جو ان کواس کام پہ لگاتے ہیں،اورورغلاتے ہیں، ان سے ان کی عمر بھر کی کمائی ہتھیا لیتے ہیں اور ان کی زندگیوں کو داؤ پر لگاتے ہیں، انھیں انسانی سمگلر کہا جاتا ہے۔
جن واقعات کا ذکر میں نے آپ سے کیا ہےان میں اکثریت جوان لوگ ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے اکثر کا تعلق پنجاب کے چند اضلاع سے ہوتا ہے۔ ان کو بھی کسی نے پالا پوسا ہوتا ہے، کسی نے بڑا کیا ہوتا ہے، ان سے کسی کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن ان کی موت صحراؤں کے اندر ہوتی ہے جہاں کوئی جنازہ پڑھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ بعد میں کوئی چرواہا ان کی لاشوں کوڈھونڈ کے لاتا ہے۔
خواتین وحضرات یہ انسانی سمگلنگ کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ کیسے رُک سکتی ہے؟یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہمیں سوچنا ہے۔
ایک بہت ہی قابل ِاعتماد ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں چار کروڑ سے زائد لوگ ایسے ہیں جو غیر قانونی طور پر ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہیں، وہاں جا کر غیر قانونی طور پر رہتے ہیں اور ان کی زندگیاں غلاموں کی طرح ہوتی ہیں۔ انھیں وہاں کا کوئی شہری حق ملتا ہے اور نہ ہی برابر کی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ وہاں پر کوئی بھی سکھ نہیں دیکھ پاتے۔
ایک دفعہ میں ہانگ کانگ گیا،میں جن لوگوں کے پاس گیا تھا وہ وہاں پر غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔ آپ یقین کریں کہ وہ لوگ اتنا بھی حوصلہ نہیں رکھتے تھے کہ ساتھ کسی بیکری سے کوئی کھانے کی چیز لے کر آجائیں ۔انھیں ہر وقت یہی خوف رہتا تھا کہ جیسے ہی وہ گھر سے نکلیں گے تو کوئی انہیں پکڑ لے گا۔ کئی اور ممالک میں بھی ایسی بے شمار مثالیں سننے اور دیکھنے کو ملتیں ہیں۔ یورپ ، خاص طور پر سپین اور یونان سے ایسی بے شمار خبریں آتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ غربت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ یہ لوگ غریب ممالک سے ایک سہانے مستقبل کی خاطر جاتے ہیں۔ ان میں بہت بڑی تعداد کا تعلق ایشیاء سے ہوتا ہے۔جن میں انڈین ، پاکستانی، بنگلہ دیشی ، سری لنکن اور شاید کچھ دیگر ممالک کے لوگ بھی اس طریقے کو اختیار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں غربت سب سے بڑی وجہ نہیں ہے؛ سب سے بڑی وجہ لالچ اورجلد امیر ہونے کا شوق ہے۔ وہ اپنے اردگرد ہمسایوں اور برادری کے لوگوں کو دیکھ کر جلد امیر بننے کی خواہش کرتے ہیں۔ یہ اس کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔
وہاں جانے کے لیے وہ اتنے پیسے خرچ کرتے ہیں کہ اتنے پیسوں سے وہ اپنے ملک میں ایک اچھا ہنر سیکھ کر کاروبار کر سکتے ہیں اور باعزت روٹی کما سکتے ہیں۔ وہ اپنی ساری بھینسیں، بکریاں اور زمین بیچ کر ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ جو کبھی انھیں کسی غیر ملک پہنچا دیتے ہیں تو کبھی نہیں ۔ اگر کوئی پہنچ بھی جاتا ہے تو غلاموں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے لیکن اگر بدقسمتی سے نہیں پہنچ پاتا، تو ا سکے ورثہ اس کاجنازہ بھی پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔
خواتین و حضرات ہم اسےکیسے روک سکتے ہیں؟
آئیں ہم اس کے لیے آگاہی پھیلائیں کہ آپ یہاں ٹیکسی چلاتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، آپ کسی چھوٹے کام کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوتے، کیونکہ یہ ہمارے خاندانی وقار کے خلاف ہے، وہاں پر آپ سب کام کرتے ہیں۔کیا وہاں یہ خاندانی وقار کے خلاف نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ وہاں پیسے ملتے ہیں اور آپ یہ ذلت (جسے آپ سمجھتے ہیں) برداشت کرتے ہیں۔
میں آپ کو بڑے وثوق سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر آپ محنت کریں، کوشش کریں تو پاکستان میں بھی بھی اتنے زیادہ اداروں کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ۔ جو یہ کام کر سکتے ہیں اور اتنے زیادہ پیسے دینے کو تیار ہیں جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ہمارے اپنے ملک میں بیشمار سہولتیں ہیں، آپ اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکتے ہیں، غمی خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں۔ میں نے اپنے ارد گرد بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو اپنے گھروں سے خالی ہاتھ آئے اور اب لاہور میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
غیر قانونی طور پر غیر ممالک میں نہ جایا جائے تو بہتر ہے۔ اگر آپ نے کہیں جانا ہی ہے اور آپ کے پاس ہنر ہے ، تو آپ کسی باعزت طریقے سے ویزہ لے کرجائیں۔ وہاں پرآپ ان کے غلام نہیں ہونگے آپ کو تمام تر شہری حقوق حاصل ہوں گے، آپ جب چاہیں واپس آ سکیں گے، لوگ آپ سے رابطہ قائم کر سکیں گے، اپنی زندگی سے لطف حاصل کر سکیں گے۔
اگر آپ غیر قانونی طور پر جاتے ہیں تو پھر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ سمگلر آپ کو ایک بے جان چیز سمجھتے ہیں، جیسے وہ کسی الیکٹرونک چیز کی سمگلنگ کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے وہ آپ کی سمگلنگ کرتے ہیں ۔ سمگلنگ کرنا اور کروانا بھی بہت بڑا جرم ہے اور اس کا حصہ دار بننا بھی۔ اس کی بہت بڑی سزا خاندان، بہن بھائیوں اور ماں باپ کو ملتی ہے۔
ہمارے خاندان میں میرا دور کا ایک کزن بھی چلا گیا تھا۔ آج اسے پندرہ سے بیس سال ہو گئے ہیں۔ اس کی آخری کال آئی تھی کہ میں کسی ملک میں ہوں، جس کے بعد کسی کو کچھ پتہ نہیں وہ کہاں پر ہے؟ زندہ ہے یا مر گیا۔ ماں باپ بھی اس کے غم میں اندھے ہو گئے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔
آئیں مل کر اس بات کو پھیلائیں کہ اگر کہیں جانا ہے تو قانونی طریقے سے جانا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے اپنے آپ کو اپنے خاندان کو ناقابلِ بیان تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا ۔ اس سے پاکستان کی جو بدنامی ہوتی ہے، اس میں بھی شامل نہیں ہونا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں وہ پاکستان میں رہ کر ہنر سیکھنے اور اس پر عمل کرنے اور اس کے ذریعے باعزت طریقے سے اپنی دال روٹی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین اور ایسے دھندے سے اور ایسے بھیانک جرم کا حصہ دار بننے سے محفوظ رکھے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان