میں ہی قصوروار ہوں،جب تک آپ مانیں گے نہیں تو آگے کیسے جائیں گے؟
قارئینِ محترم! میاں محمد بخش لکھتے ہیں کہ
بُرے بندے نوں لبھن ٹریا، بُرا لبھیا نہ کوئی
جد میں اندر جھاتی پائی تاں میں توں برا نہ کوئی
انتہائی سادہ سا مطلب بنتا کہ دراصل میں خود ہی قصوروار ہوں۔ انھوں نے بُرے کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یقین مانیےمیں نے خود اپنی زندگی، مینیجمنٹ میں جو کہانیاں پڑھیں، لوگوں کی آپ بیتیاں پڑھیں ان سب میں ناکام نتیجے اور مقاصد پورے نہ ہونے کی عام وجہ جو ہےوہ “میرا ہی قصور” رہی۔ مینجمنٹ کی کتابیں پڑھی جائیں تو بہت سی کمپنیوں کی نیلامی اور اس کی تباہی و نقصان کا باعث ان کے ایکسٹرنل نہیں بلکہ انٹرنل فیکٹرز رہے ہیں۔
میں آج بھی آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت سی کمپنیاں جو ناکام ہوتی ہیں اور اندر سے مضبوط ہوں، طاقتور ہوں، اس کے وسائل ٹھیک ہوں، عقل و شعور کا پورا پورا استعمال ہو تو اس جو کوئی نقصان نہیں ہوتا اگر وہ اندر ہی سے گل سڑ جائیں، اندر ہی سے خراب ہوں ،اس کے اندر ہی کرپشن ہو رہی ہو، اندر ہی فراڈ ہو اور اندر ہی لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو تو یقیناً اس کو نقصان ہوگا۔
مختصراً یہ کہ اگر کوئی بھی ایسا معاملہ پیش آئے تو خدارا دوسروں کی غلطیاں واضح کرنے کی کوشش کی بجائے اپنی غلطی تسلیم کیجیے۔ اگر کسی دوسرے نے غلطی کی بھی ہے تو ہم اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے لیکن اگر غلطی ہم سے ہو تو ہم خود اس کی اصلاح کر سکتے ہیں جب ہم اپنی غلطی تسلیم نہیں کریں گے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے؟ اپنی کامیابی کے پیچھے بھی ہم ہی ہیں اور اپنی ناکامی کے پیچھے بھی ہم خود ہی ہیں۔ یہ اللّٰہ کی مرضی ہے کہ کس کو کامیاب کرتا ہے اور کس کو ناکام؟
آئیے یہ بات تسلیم کریں کہ ہماری کامیابی کی وجہ ہم خود ہی ہیں اور ناکامی کی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں۔ اللّٰہ کس کو کامیاب کرتا ہے اور کس کو ناکام کرتا ہے؟ یہ ایک الگ چیز ہے۔ بات اچھی لگے تو آگے پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔ شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمدمشتاق مانگٹ