صدقہ، خیرات اور زکوۃ اللہ کی راہ کے میں خرچ کرنے کے احکامات ہیں جو ہمیں دین میں ملتے ہیں اور بارہا ملتے ہیں۔ اور بارہا اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم کرتا ہے کہ میں نے جو تمہیں دیا ہے۔ اس میں سے میری راہ کے اندر میرے بندوں پر خرچ کرو اورہمیں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جب خرچ کرو گے تو میں تمہیں اس کابہترین اجر دنیا اور آخرت میں عطا بھی کروں گا۔
دنیا نے پتہ نہیں کب سے ایک خیراتی دن منانا شروع کیا ہے۔ کہ پانچ ستمبردنیا میں ایک خیراتی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ خیراتی دن شاید انہوں نے اس لحاظ سے طے کیا ہے تا کہ لوگوں کویاد کرایا جائے کہ آپ نے اپنے رزق میں سے خیرات کرنی ہے اوراس سے لوگوں کے اندر خیرات کا جذبہ بھی پیدا کرنا ہے۔
مسلمانوں کے لیے تویہ اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جیسے ہی ہم قرآن پاک پڑھنا شروع کرتے ہیں تو آپ کو پہلی ہی چند آیات کے اندراللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بات ملتی ہے۔ اب آپ احادیث اٹھا لیں وہاں بھی خرچ کرنے کی ہدایت ملتی ہے۔ہمیں قرآن شریف میں بارہا جگہ کے اوپران باتوں کاتذکرہ ملتا ہے ۔ کیونکہ دنیا یہ دن منا رہی ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس دن کی مناسبت سے ہم بھی دنیا کو بتائیں کہ ہمارادین تو ان باتوں کو ہمیشہ سے ہی لے کر چل رہا ہے۔
ہمارےدین کے اندر جہاں نماز، روزے کا حکم ہے، ماں باپ کے ادب کا حکم ہےوہیں پر اللہ کی راہ کے اندر خرچ کرنے کا بھی حکم ہے۔ تو یہ دن ہم اس لیے نہیں منا رہے ،کہ وہ منا رہے ہیں بلکہ ہم ان کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جو دن آج آپ منا رہے یہ تو صدیوں سے ہمارے لیے حکم تھا اور اس حکم کی پابندی ہم سب پر فرض تھی۔ پہلے دن ہی سے زکوۃ ہر شخص پر لاگو ہو گئی تھی جو صاحب نصاب تھا۔حتیٰ کہ ہمارے ہاں تو جب عیدمنائی جاتی ہے تو اس دن بھی غریبوں کو نہیں بھولا جاتا۔ فطرانے کی شکل کے اندر دولت بہت سارے ہاتھوں سے نکل کر بہت سارے ضرورت مند کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے ۔
میں آج جس پہلو پرآپ کے سامنےبات کرنا چاہتا ہوں، وہ خیرات دینےسے بھی آگے کی بات ہے۔ آپ نے یہ حدیث بار ہاں سنی ہوگی، حدیث کی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ نبی محترم ﷺ کی مجلس میں ایک صحابی آئے اور انہوں نے آ کر اپنی ضرورت بتائی۔یا نبی محترم ﷺ میری ایک ضرورت ہے آپ پوری کر دیں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ ہے، اس نے کہا کچھ چیزیں ہیں جس کا ذکر کیا گیا اور وہ چیزیں آپﷺ نے ان سے منگوائیں۔آپﷺ نے مجلس میں لوگوں سے کہا ،ہے کوئی اس کو خرید نے والا اور مجلس سے میں کچھ لوگوں نے ان چیزوں کو خرید لیا۔ پھر آپ ﷺنے اسے کہاکہ جاؤ جا کر ایک کلہاڑا لے کر آؤ ،وہ کلہاڑالے کر آیا آپ ﷺنےاپنےہاتھ مبارک سے اس کے اندر لکڑی لگائی۔ اس کو کہا جاؤ جنگل میں لکڑیاں کاٹو اور اس کے بعد اس کو بیچو اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالو ۔
کچھ دن کے بعد وہ صحابی آئےتو وہ صاحب خیر تھے، اس نے اپنا خرچ بھی پوراکر لیا اوررزق بھی ،اس طرح وہ برسر روزگار ہوں گے۔ یہ ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے ۔ بےشمار علماء کرام اس کا تذکرہ بھی کرتےہیں۔
میرے نزدیک یہ دنیا میں ترقی کا واحد نہیں بلکہ ان طریقوں میں سے ایک بہتر طریقہ کار ہے ۔جس سے غربت دور ہو سکتی ہے جس سے ہم لوگوں کو غریب ہونے سے نکال سکتے ہیں۔ پاکستان کے اندر چھ سو ارب روپے کی خیرات کی جاتی ہے ۔توکیا یہ چھ سو ارب روپے کی خیرات ہمارے مسائل کا حل ہے؟ یقیناً اس سے بہت سے لوگوں کے مسائل دور ہوتے ہیں کسی کو دوائی ملتی ہے ، کھانا ملتا ہے ، گھر ملتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن آئیں اس سے آگے بڑھیں نبی محترم ﷺ کے بتائےہوئے ماڈل پہ کام کریں بجائے اس کے کہ ہم ہرروز اسے زکوۃ دیں۔ آئیں ہم اس کو برسرروزگار ہونے میں مدد دیں، اسے شعور دیں ،آگاہی دیں کہ اس طرح مانگنے سے بہت دیر تک آپ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ آئیں مل کر ہم کچھ ایسا کرتے ہیں کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ممکن ہے ،کیسے ممکن ہے؟ جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے ساتھ سلوک کیا۔
یقینی طور پر آج بھی ہمارےمعاشرے کے اندر بے شمار تنظیمیں بلکہ بڑی بڑی تنظیمیں بہت بڑی مقدار کے اندر لوگوں کو قرض حسنہ دیتی ہیں۔ تاکہ لوگ اس سے اپنی کچھ نہ کچھ کوئی چیز خریدیں اس کوبیچیں اور بیچنے کےبعد اپنے اخراجات پورے کریں۔ یقیناً یہ قابل تعریف کام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ہمیں کام کرنا ہے جس کے لیےتعاون فاؤنڈیشن کام کررہی ہے۔ تعاون فاؤنڈیشن یہ کام کر رہی ہے کہ اگر اس کو شعورو آگاہی مل جائے اس کو یہ پتہ لگ جائے کہ میں نےکاروبار کیسے کرنا ہے؟ تو وہ بہت تھوڑے پیسوں سے بھی اچھا کاروبارکر سکتا ہے لیکن اگر اس کو شعورو آ گہی نہیں ہو گی اگر اسے بہت بڑےپیسے بھی دے دیں گے تو وہ نہیں چلا سکتا۔
آپ میری بات سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اور دنیا میں اس بات پربحث ہوتی ہے کہ کیاکاروبار کے لیے پیسے چاہیے ؟یا کاروبار کے لیے ایک ذہنیت چاہیے، صلاحیت چاہیے، سوچ چاہیے ،شعور چاہیے، آگہی چاہیے۔ تودنیا اس نتیجے پہ پہنچی ہے کہ دولت نہیں چاہیے پیسہ پہلے نہیں چاہیے ہاں بعد میں ضرور چاہیے ہو گا سب سے پہلے وہ شعور ،وہ آگہی ، وہ مہارت چاہیے کہ میں نے کاروبار کیسے کرنا ہے؟ بے شمار لوگوں کو آپ دیکھتے ہیں وہ زیرو بھی ہوئے لیکن کاروبار کرنے کی صلاحیت تھی تو پھر اٹھ گئے۔ اور بہت سارےلوگوں کی آپ زندگی دیکھتے جائے تھے وہ کیا تھے؟
کہ جی میں نے ایک چائےکے کھوکھے سے کام شروع کیا تھا اور آج وہ بہت بڑی ملز کا مالک ہے۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں آپ بھی جانتے ہوں گے۔میرے خیال کے اندر آج میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اس کو پیسے دینے سے پہلے اگر آپ نے شعور اور آگہی نہ دی تو وہ پیسے ضائع کر دے گا۔
ہمارے پاس تین اقدام ہیں، پہلایہ کہ ہم اسے خوراک دے دیں اور وہ جائے ،کھائے پیئے۔ اورصبح اس نے اپنا کھانا لیا اور اگلے دن پھر وہ آپ کے سامنے کھڑاہو گا کہ مجھے کچھ پیسے چاہیے۔
دوسرا یہ کہ ہم اسے کچھ پیسے دے دیں تاکہ وہ اس سے اپنا رزق کمانا شروع کر دے، یہ وہ کر سکتا ہے، کرتا بھی ہے لیکن اگر ہم نے اسے شعورو آ گہی نہ دی تو یہ رقم وہ بہت اچھے طریقے سے خرچ نہیں کر سکتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ پہلی چیز اس کو شعورو آگہی وہ کاروبار کی سوچ دینا ضروری ہے۔جس کی بنیاد کے اوپر وہ پیسے لے کر اپنی کچھ چیزیں لے کر معمولی سے معمولی حصے کےاوپر اپنا کام چلاتا ہے، وہ چائے کاکھوکھا ہو سکتا ہے، وہ ایک فروٹ کی ریڑھی کی بھی ہو سکتی ہے۔
آئیں تعاون فاؤنڈیشن کے ساتھ اس شعور و آگاہی کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ ہم اس بات پہ کام کر رہے ہیں کہ ہم لوگوں کے لیے اس بات کی ویڈیوز تیار کریں کہ کاروبار کیسے کرنا ہے؟ اس پر ہم نے ایک ویڈیو بنائی ہے، جس میں پانچ سنہری اصول یہ لکھے تھے کہ کس طریقےسے کاروبار کرنا ہے۔ آئیں مل کر لوگوں کو بجائے اس کے کہ خیرات کے اوپر مستقل لگاتے رہےاور ہر روز ان کی مدد کرتے رہے۔
ہم کیوں نہ نبی پاک ﷺ کی سیرت پر ،ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی کو برسرِ روزگار بنانے میں مدد دیں۔یقیناً صدقہ و خیرات اپنی جگہ پر بہت اہم ہے ۔جس کادینا بھی مجھ اور آپ پر فرض ہے اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔نہ کوئی انکار کر سکتا ہے، نہ کبھی کسی نے کیا ہے ہمیں وہ ضروردینا چاہیے لیکن اس سے بھی جو کام نبی پاک ﷺ نے بتایا ہے ہمیں اس پر بھی عمل کرنا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ جب ہم یہ دونوں کام کریں گے توخیرات بھی دیں گے، شعورو آگاہی بھی دیں گے۔ یہ دونوں چیزیں مل کر اس معاشرے سے غربت کی جہالت کو دور کر سکیں گی اور ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ایک بٹا تین لوگ غریب نہیں ہیں بلکہ شاید ہمارے ملک میں کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ زکوۃ لینے کے لیے باہر کھڑا ہو۔بہت بہت شکریہ
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان