میرے ساتھ پچھلے دنوں ایک صاحب نے ایسی بات شیئر کی جو ان کا خیال تھا میں آگے شیئر نہیں کروں گا، لیکن میرے خیال میں وہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اور میں نے یہ بات ان کے کسی جاننے والے سے شئیر کردی جس پر وہ ناراض ہوگئے اور مجھے بتایا بھی نہیں کہ میں اس بات پر ناراض ہوں۔ میں نے اس بات کو اہمیت بھی نہیں دی پھر ایک دن وہ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے گلہ کیا کے میں نے آپ سے یہ بات کی تھی اور آپ نے یہ بات کسی اور سے کردی جس پر مجھے بہت شرمندگی ہوئی تو میں نے ان سے فوراً معذرت کرلی۔
اس اعتماد پر ایک ایسا فیکٹر ہے جو میں آج آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔ وہ معذرت کرنا، معافی مانگنا یا اپنی غلطی تسلیم کرنا ہے۔ آپ نے اور میں نے بہت مرتبہ دیکھا ہے کہ ایک والد اپنے چھوٹے بچے کو جو تقریباً دو یا ڈیڑھ سال کا ہے ، ہوا میں اچھا ل رہا ہے یا وہ اسے کسی اونچی جگہ سے کہتا ہے کے میری طرف چھلانگ لگاؤ تو وہ لگا بھی دیتا ہے حالانکہ اگر اس کے والد سے وہ سنبھالا نہ جائے تو اس کو بہت ساری چوٹ لگ سکتی ہے لیکن وہ چھلانگ لگادیتا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ بچے کو بھروسہ ہوتا ہے کہ جو شخص مجھے بلا رہا ہے وہ مجھے سنبھال لے گا تو اس چیز کو اعتماد کہتے ہیں۔ کاروبار کی دنیا میں بھی سب سے قیمتی چیز کسی بھی ادارے کی،کسی بھی فرد کی یہ ہے کہ لوگ اس پر کتنا اعتماد کرتے ہیں۔ اسی طرح سے تعلقات میں بھی لوگ اسی شخص سے بات کرنا پسند کرتے ہیں جن پر انہیں بھروسہ ہوتا ہے، کوئی شخص آپ کو اپنی ذاتی بات تب بتاتا ہے جب وہ آپ پر بھروسہ کرتا ہے۔ کاروبار کی دنیا میں بھی اگر کسی شخص کا ایک لمحے کیلیے بھی اعتماد ختم ہوجائے تو کوئی شخص اس کے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ کاروباری دنیا میں ہر کام لکھا پڑھا نہیں ہوتا۔ فون پہ بات کی، طے ہوگیا۔ اگر بات طے نہ ہوئی اور ہر بات لکھی پڑھی نہیں ہوتی لیکن اگر کسی آدمی کا اعتماد ہی ٹھیک نہ ہو تو وہ لکھی پڑھی چیز میں بھی سو نقائص نکالے گااس لیے دنیا کی سب سے اہم چیز اعتماد ہے اور اس کا اہم فیکٹر ہے معذرت کرنا اپنی غلطی تسلیم کرنا۔
کاروبار کی دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کا دوسرے شخص سے تھوڑا سا بھی اعتبار اٹھ جائے تو آئندہ کوئی بھی اس کا اعتبار نہیں کرتا اور کوئی اس کے ساتھ کام بھی نہیں کرتا۔اسی طرح تعلقات کے اندر بھی لوگ اسی شخص سے بات کرنا پسند کرتے ہیں جو معتبر ہو، قابل اعتماد ہو۔آپ سے کوئی شخص اس وقت اپنی ذاتی بات کرے گا جب وہ یہ سمجھے گا کہ آپ اس کی بات کو راز رکھیں گے،اس کی بد نامی کا باعث نہیں بنیں گے اور بلا وجہ اس کی بات دوسروں تک نہیں پہنچائیں گے۔ آپ کے علم میں ہے کہ کاروباری دنیا میں لوگ کروڑوں روپے کا کام اعتماد کی بنا پہ صرف زبانی کرتے ہیں۔ ہر چیز لکھی پڑھی ہی درست نہیں ہوتی کیونکہ اگر اعتماد ہی نہیں ہوگا تو لکھ دی گئی چیز پر بھی سو نقائص نکالے جا سکتے ہیں۔اس لیے دنیا میں سب سے اہم چیز ‘بھروسہ’ ہے اور بھروسے کا اہم ترین جزو فوری طور پر معذرت کرنا،apologizeکرنا ہے۔ دنیا کی بہت سی ریسریچزنے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اگر بات کرتے وقت کسی بھی طرح کسی کے بھروسے کو ٹھیس پہنچے تو فوری طور پر معذرت، اعتماد دوبارہ بحال کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
میرے ساتھ پچھلے دنوں ایک صاحب نے کوئی بات کی جو میرے خیال میں کوئی خاص نہ تھی اور میں نے وہ بات ان صاحب کے کسی جاننے والے سے کر دی جبکہ ان صاحب کا گمان تھا کہ میں وہ بات کسی سے نہیں کروں گا، وہ جب مجھے ملے تو خاصے ناراض معلوم ہوتے تھے اور میں نے اس بات کو اہمیت نہیں دی۔ کچھ دن بعد وہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ کے بات کرنے پر مجھے بہت شرمندگی کا سامنا ہوا۔ میں نے فوری طور پر ان سے معذرت طلب کی اور ان سے کہا کہ میرا خیال تھا کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہو سکتی۔ میں پھر سے apologize کیا، معافی مانگی اور اس طرح ہمارا اعتماد rebuild ہو گیا۔ یہ میں نے آپ کو ذاتی مثال دی۔اس کے علاؤہ دنیا کی تمام ری سرچز یہ بیان کرتی ہیں کہ اگر کسی شخص،جس سے کسی بھی طرح کا آپ کا اپنائیت کا تختہ ہو اور آپ کی کسی بھی بات سے اس کے بھروسے کو نقصان پہنچے تو فوری طور پر معذرت کر لینی چاہیئے۔ اس طرح آپ کا اعتماد بحال ہو جائے گا اور اگر آپ یہ اعتماد بحال نہ کر سکیں تو آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ نے دنیا کی اہم ترین چیز کھو دی ہے۔
یہاں پر میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے ایک واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ پورا قریش آپﷺ کے پیچھے پڑا ہوا تھا، آپﷺ کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا (نعوذباللہ)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو آبائی شہر مکہ کو چھوڑ کر ہجرت کرکے جانا پڑا لیکن اعتماد کا یہ حال تھا کہ اس وقت بھی آپ کے پاس غیر مسلموں کی امانتیں موجود تھیں جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ذمہ لگایا کہ وہ ان امانتوں کو ان کے وارثوں تک بحفاظت واپس کر دیں گے۔ آئیے اس بات کا عہد کریں کہ اگر کوئی ہم پر اعتماد کرتا ہے تو اس کے اعتبار کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اور اگر ایسا کچھ ہو بھی جائے تو apologize کر لیں گے تاکہ اعتبار نہ ٹوٹے۔
میں تو ایسا سوچتا ہوں
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان