مجھے ستمبر 2008 ء میں افغانستان جانے کا موقع ملا۔ میں اس وقت روٹری کلب مزنگ لاہور کا صدر تھا۔ مجھے پتہ چلا کے کابل میں ایک روٹری کلب کا پروگرام ہے۔ اسی سلسلے میں کابل جانا ہوا ، وہاں تین دن قیام کیا۔یاد رہے اس وقت افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔ ان تین دنوں کی رُوداد پیشِ خدمت ہے۔
کابل جانے کی دیرینہ خواہش مدت سے دل میں موجود تھی۔ کابل کا ذکر کتابوں میں بارہا پڑھا۔ انڈیا کو فتح کرنے والے فاتح انگریزوں کے علاوہ سب اسی طرف سے آئے تھے۔ کابلی چنے، کابلی پلاؤکا ذکر بھی مدت سے سنتے آرہے تھے۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ پچھلے تیس سالوں سے کابل حالتِ جنگ میں ہے، جس کی وجہ سے اس کا ذکر ہر روز سننے کو ملتا تھا۔ اس لیے جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ کابل جانے کی کوئی شکل سامنے آرہی ہے تو سوچا کہ اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہے۔
کابل کے جنگی حالات کی وجہ سے مجھے اندازہ تھا کہ گھر والوں سے اجازت نہیں ملے گی اور کوئی بھی اس سفر پر جانے کا مشورہ نہیں دے گا۔ میں نے روٹری کلب کے ایک دوست کو اپنے سفر کے متعلق بتایا تو اس نے کہا کہ پہلے صدقہ کا بکرا ذبح کرو پھر جانا۔ ان دنوں وہاں حالات کے باعث صورتِ حال ایسی ہی تھی، کابل میں ہر روز بم دھما کےمعمول کی بات تھی۔ چند ہفتے قبل انڈین ایمبیسی پر بھی حملہ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں سرینا ہوٹل پر بھی حملہ ہوا تھا۔ کابل کی تاریخ کے یہ سب سے مشکل ترین سال تھے، اس سب کے باوجود جانے کا فیصلہ اٹل تھا۔
سب سے اہم مسئلہ اہلیہ سے اجازت لینا تھا۔ اس کے لیے میں نے ایک تدبیر سوچی، اہلیہ کو پُر اعتما د طریقےسے بتایا کہ مجھے ایک پروگرام کے سلسلے میں پشاور جانا پڑ رہا ہے۔ اس طرح پشاور جانے کی اجازت مل گئی۔ اجازت ملتے ہی میں پشاور کے لیے روانہ ہو گیا۔ پشاور میں روٹری کلب پاکستان کے گورنر جناب رؤف روہیلہ صاحب سے رابطہ ہو گیا۔ان کے علاوہ روٹری کلب پشاور سےتعلق رکھنے والے دو اور دوست بھی ہمارے ساتھ جا رہے تھے۔ اس طرح یہ قافلہ چار افراد پر مشتمل ہو گیا۔ایک دن صبح ہم نے افغانستان کے قونصلیٹ پشاور میں ویزہ کے لیے کاغذات جمع کروائےاوراسی دن شام کو ہمیں ویزہ مل گیا۔ اس طرح 7 ستمبر سے9ستمبر 2008 ء تک کابل میں تین دن گزار کر واپس لاہور پہنچ گئے۔
آپ پشاور سے کابل بذریعہ ہوائی جہاز بھی جاسکتے ہیں اور سڑک کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ہم نے اس سفر کے لیے سڑک کے راستے کا انتخاب کیا، جو مشکل اور خطرناک تو ضرور تھا، لیکن اس سے ہمیں افغانستان کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ اگر ہم یہ سفر اختیار نہ کرتے تو یقیناً میں آپ کو راستے میں آنے والے مقامات کے بارے میں بتانے سے قاصر ہوتا۔
پشاورسے طورخم:
کابل جانے کے لیے آپ کو طورخم بارڈر سے گزرنا پڑتا ہے۔ طورخم، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک سرحدی شہرہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے آپ کوحیات آباد، جمرود، باب خیبر اورلنڈی کوتل سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ پشاور سے طورخم تک کا فاصلہ ستر کلومیٹر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو افغانستان کے متعلق کچھ بتاؤں میں چاہوں گا کہ آپ کو اس راستے میں آنے والے چند اہم مقامات سے شناسائی کروادوں۔
حیات آباد کارخانو مارکیٹ
حیات آبادپشاور کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کا نام حیات محمد خان شیرپاؤ کے نام پر رکھا گیا۔جو صوبہ سرحد موجودہ (کے پی کے) کے گورنر بھی رہے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں وزیرداخلہ کے منصب پر بھی فائز رہے تھے۔ وہ سوشلسٹ نظریات کے حامی تھے، بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔ شیرپاؤ، 1975 ء میں ایک بم دھماکے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ لاہور میں واقع گلبرگ اور کینٹ کے درمیان ریلوے پل کا نام شیر پاؤ انھی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
حیات آباد ایک پوش ایریا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بڑا انڈسٹریل ایریا بھی موجود ہے۔افغانستان جہاد کے دوران جو بہت بڑے بڑے لوگ جہاد میں حصہ لینے کے لیے پاکستان آئے تھے، ان کی اکثریت حیات آباد میں رہتی تھی۔ میں بھی جب افغان جہاد میں حصہ لینے کے لیے پشاور آیا تو اس وقت حیات آباد میں ہی کسی گھر میں ٹھہرا تھا، جہاں ہمارے علاوہ کئی اور مجاہد بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔
حیات آباد کے ساتھ ہی کارخانو بازار ہے، یہ اپنی نوعیت کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں پر بے شمار پلازےہیں اور پوری دنیا سے سامان، خاص طور پر گھریلو سامان یہاں لا کر بیچا جاتا ہے۔ ایک دور میں لاہور سے جو بھی شخص پشاور آتاتو اس سے یہی فرمائش کی جاتی تھی کہ باڑہ مارکیٹ یا کارخانوں بازار سے گھریلو سامان ضرور خرید کر لائیں۔ میں نے ذاتی طور پر بھی کئی مرتبہ باڑہ مارکیٹ اور کارخانو بازار سے سامان خریدا ہے۔
آپ کے لیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ لوگ جہیز کا پورا سامان یہاں سے خرید کر لے جاتے تھے۔ مال دوکان میں ہو تو کسٹم والوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا، لیکن جیسے ہی آپ سامان لے کر سڑک پر آتےہیں تو کسٹم کا محکمہ آپ سے مختلف سوال وجواب شروع کر دیتا تھا لیکن پھر بھی یہ کام بہت تسلسل سے ہوتا تھا۔ حال ہی میں، میں پشاور گیاتو اس مارکیٹ کو دیکھنے کے لیے چلا گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ اب اتنی بارونق نہیں ہے، لیکن پھر بھی بے شمار دکانیں موجود تھی اور گاہک بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ حیات آباد سے گزرتے ہوئے مجھے روس کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے بے شمار مجاہد یاد آئے، اُن پر قاتلانہ حملے بھی اسی علاقے میں ہوتے تھے ۔
جمرود: پاکستان کا آخری سرحدی شہر:
حیات آباد کے فورا ًبعد جمرود کا علاقہ آتا ہے۔ جمرود پاکستان کا آخری سرحدی شہر ہے۔ اس کے بعد خیبر ایجنسی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔جمرود کے بازار میں بے حد رونق تھی۔ روہیلہ صاحب نے بتایا کہ ان میں سے اکثریت ان افغانیوں کی ہے جو افغانستان پر امریکی حملہ کی وجہ سے اس علاقہ میں آئے ہوئے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے لوگوں کی وضع قطع پشاور کے رہائشیوں سے مختلف ہوتی ہے۔ روہیلہ صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان کی پشتو اورہماری پشتو میں بھی بہت فرق ہے، جس سے انھیں پہچاننے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
جب ہم جمرود کے بازار سے گزر رہے تھے، تو میں نے تصوّر کیاکہ سکھ اس علاقہ میں قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ غالباً پہلے پنجابی تھے جنہوں نے پنجاب سے جمرود جاکر درانی قبائل اور انگریزوں کے ساتھ لڑائیاں لڑیں اور اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ جمرود سے گزرتے ہوئے میرے ذہن میں بے شمار تاریخی واقعات تازہ ہونے لگے۔ جن میں سب سے اہم سکھوں کی اس علاقہ میں آمد تھی۔ سکھ وہ واحد قوم ہے جس نے افغانوں کو شکست دی، ابھی بھی صرف کابل میں ایک ہزار کے قریب سکھ خاندان بستے ہیں، یہ سکھ اٹھارہویں صدی کے وسط میں کابل میں داخل ہوئے تھے۔
جمرود حالیہ جنگ کے دنوں میں بیحد اہمیت کا حامل رہا ہے، یہ نا صرف خیبر ایجنسی کا دروازہ کہلاتا ہے بلکہ سلسلہ کوہ ہندوکش کا ایک حصہ بھی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ یہ علاقہ بذریعہ ٹرین پشاور سے بھی منسلک ہے ۔یہ وسطی اورجنوبی ایشیا کے درمیان ایک معروف گزرگاہ بھی ہے۔ یہ وہ صدیوں پرانا راستہ ہے جہاں سے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے ہر جنگجو کا گزر ہوا ہے۔
سطح سمندرسے پندرہ سو فٹ بلند یہ خطہ پشاور سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔یہاں پر سکھوں اور درانی حکمرانوں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی، جس میں سکھوں کو فتح حاصل ہوئی، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوا نے یہاں پر ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ اب بھی موجود ہے۔ ہری پور شہر بھی اسی جرنیل کے نام پر بسایا گیا ہے۔
انگریزوں نے بھی جمرود قلعہ کو اپنی چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا۔قلعہ جمرود دس فٹ چوڑی فصیلوں اور کئی عمارتوں پر مشتمل ہے۔ یہ قلعہ انگریزوں کا بیس کیمپ بھی تھا جہاں سے وہ مختلف علاقوں میں اپنی فوجوں کو بھیجتے تھے۔ وادی تیرہ میں پختونوں کے ساتھ ہونے والی مختلف لڑائیوں کے دوران یہ قلعہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ آپ اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ انگریزوں نے خیبر رائفل کا ہیڈکوارٹر بھی جمرود میں بنایا تھا۔ قلعہ کی عمارت اب بھی باقی ہے اور اس پر اس وقت پاکستانی جھنڈا لہرا رہا ہے اور اب پاکستانی سیکورٹی فورسز اس جگہ کو استعمال میں لا رہی ہیں۔
اس قلعہ کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ مشہور ہے کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے کی شادی کی تقریب لاہور میں منعقد ہونا تھی، جس میں ہری سنگھ نے اپنی نمائندگی کے طور پر، ساری فوج کو شادی میں شرکت کے لیے لاہور بھیج دیا۔ یہ بات کسی طرح انگریزوں اور حریت پسند افغانوں کو پتہ چل گئی، فوج کے پنجاب پہنچتے ہی انگریزوں اور افغانوں نے مل کر حملہ کردیا اور ہری سنگھ کو ذلت آمیز شکست ہوئی وہ اپنے وزرا سمیت مارا گیا۔(باقی آئندہ قسط میں)
Photo Credit:BarusSahib.org
Hari Singh Nalwa Photo Credit:Sikhiwik
ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ
تعاون فاؤنڈیشن پاکستان